اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاکستان کا فعال کردار

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے دورۂ امریکہ کے دوران ممتاز دانشوروں‘ اہم تھنک ٹینکس اور سٹرٹیجک امور کے ماہرین سے گفتگو کی اور عالمی وعلاقائی معاملات پر پاکستان کے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان علاقائی کشیدگی میں کمی کیلئے فعال کردار ادا کرتا رہے گا۔ علاقائی امن واستحکام کیلئے پاکستان کی جانب سے ہمیشہ مثالی کردار ادا کیا گیا۔ اس کی مثال حالیہ دنوں ایران اسرائیل تصادم میں پاکستان کے مؤقف اور سفارتی اقدامات سے پیش کی جا سکتی ہے۔ پاکستان ان اولین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کے بعد سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی تحریک پیش کی۔ گزشتہ روز یہ اہم اجلاس منعقد ہوا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل سیز فائر کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور سفارتکاری کو موقع دیا جائے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فونک گفتگو کی تو انہوں نے بھی ایران اسرائیل تصادم سے پیدا ہونے والے سنگین بحران کے پُرامن حل کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس تشویشناک صورتحال میں پاکستان امن کی کوشش میں تعمیری کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ خطے کی ایک اہم ریاست کی حیثیت سے‘ ایران کا ہمسایہ ہونے کے ناتے اور پاک ایران تعلقات کی مضبوطی پر بھروسا کرتے ہوئے پاکستان یقینا اس پوزیشن میں ہے کہ اس تنازعے کو سمیٹنے میں بہترین کردار ادا کر سکے۔ اگلے روز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کیساتھ ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان ایران کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ پاکستان کے اپنے خطے کے ممالک کیساتھ تاریخی اور اعتماد کے رشتے اتنے مضبوط ہیں کہ پاکستان انہیں قائل کر سکتا ہے۔ پاکستان کی اس حیثیت سے مغربی اور عالمی طاقتیں اگر فائدہ اٹھائیں تو مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی خطے کے اہم تنازعات کا قابلِ قبول اور پُرامن حل نکل سکتا ہے۔ عالمی طاقتیں اس سے قبل بھی‘ بوقتِ مشکل‘ پاکستان کی جانب رجوع کرتی رہی ہیں‘ مگر پائیدار امن کیلئے سفارتی کوششوں میں پاکستان کا کردار مان کر چلنا ہو گا۔ پاکستان افغانستان میں بھی استحکام اور پائیدار امن کا داعی ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن کوششیں کی گئیں مگر بدقسمتی سے کابل کی عبوری حکومت پاکستان کے اس خلوص کا مساوی جواب نہیں دے سکی اور پاکستان دشمن عناصر کیلئے اپنے ہاں سہولتیں پیدا کر کے باہمی اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ مگر اب یوں ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان کو اسکا احساس ہو چلا ہے اور بادی النظر میں وہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ چاہتے ہیں۔ اگر ایسا واقعتاً ہو تو یہ پاکستان کے علاوہ خود افغانستان کیلئے بے حد اہم ہے۔ پاکستان خطے میں وسیع تر ترقی کے امکانات کے فروغ اور غربت کے خاتمے کا خواہش مند ہے۔ ہمارے اس خطے میں ترقی اور خوشحالی کے بے پناہ وسائل ہیں مگر بدامنی‘ بے اعتمادی اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہ چلنے کی روش نے سبھی کو پیچھے دھکیلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ امکانات ابھی تک مہر بند ہیں۔ ان میں معدنی وسائل بھی ہیں اور جغرافیائی وانسانی اثاثہ بھی۔ اس کی اشد ضرورت ہے کہ خطے کے ممالک اس جانب متوجہ ہوں ‘ مگر یہ پائیدار امن کے بغیر ممکن نہیں۔ امن استحکام کی پہلی شرط ہے اور تنازعات کے سفارتی حل کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ بیرونی قوتوں کی اس خطے کے معاملات میں مداخلت‘ جنگیں اور ریاستوں کو کمزور کرنے کی سازش ناقابلِ قبول ہے۔ ایران اسرائیل معاملے پر‘ خوش قسمتی سے‘ دنیا کے اس حصے کے اہم ممالک اسی مؤقف پر قائم ہیں اور سبھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور اس تصادم کے پھیلنے کے نتائج سے خبردار کر رہے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ یہ علاقائی یکجہتی آنیوالے وقت میں خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کرے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں