اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

او آئی سی اجلاس

استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم کے خصوصی اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی اور مسلم ممالک کو اختلافات ختم کرنے اور ایک ہوجانے کی تلقین کی گئی۔ اس حوالے سے سب سے اہم خطاب ترک صدر رجب طیب اردوان کا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کی صہیونی خواہشات دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتیں۔ مسلم ممالک کے اس اہم بین الاقوامی فورم پر اسرائیلی جارحیت پر مسلم ممالک کا اظہارِ مذمت مسلم سماج کے جذبات کی عکاسی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات طویل مدت سے بے چینی کا شکار ہیں مگر حالیہ چند برسوں کے دوران فلسطین پر بدترین اسرائیلی جارحیت اورخطے کے دیگر ممالک کے خلاف نئے محاذکھولنے سے یہ خطہ آتش فشان کی طرح دھک رہا ہے۔ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں جس ڈھٹائی سے دندناتا پھر رہا ہے اس کی مثال نازی جرمنی کے سوا کہیں نہیں ملتی۔ فلسطین تو پون صدی سے صہیونی جرائم کی زد پر ہے مگر حالیہ عرصے میں خطے کے دیگر ممالک بھی اسرائیلی نشانے پر ہیں اور وہ بلا جھجک جب چاہتا ہے شام‘ لبنان اور یمن پر حملے کرتا ہے‘ جبکہ گزشتہ ہفتے سے ایران پہ بھی اسرائیلی لشکر کشی جاری ہے۔ یہ صورتحال مسلم دنیا کے حکمرانوں کیلئے کھلی تنبیہ ہے ۔ ایران پر اسرائیل کے بلا اشتعال حملوں کا واضح مطلب یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے سامنے ہر طرح کے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر بے معنی ہیں۔ صہیونی ریاست کا جنگی پاگل پن خطے کی ریاستوں کیلئے غیر معمولی خطرہ بن چکا ہے اور اس کے سدباب میں تاخیر بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم ڈھکے چھپے نہیں اور طاقت کے بے رحمانہ استعمال میں اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں‘ نہ ہی مغربی طاقتوں کا رویہ اس ضمن میں غیر جانبدارانہ دکھائی دیتا ہے۔ مسلم ممالک کے پاس دنیا کے اہم ترین علاقائی فورمز اور تنظیمیں ہیں اور دولت اور اثر و رسوخ کے لحاظ سے بھی یہ ممالک اپنا بھر پور وزن رکھتے ہیں ‘ مگر یہ بات سوچنے کی ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود مسلم ممالک عالمی سطح پر اپنا مقدمہ مؤثر طور پر لڑنے سے قاصر ہیں۔او آئی سی ‘ عرب لیگ اور مسلم ممالک کے دیگر اہم فورمز کے اجلاس محض رسمی کارروائی بن کر رہ گئے ہیں اور اعلامیے مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ مسلم دنیا کیلئے یہ صورتحال گہرے غور و خوض کی متقاضی ہے کیونکہ مسلم آبادی کو مشرقِ وسطیٰ میں صہیونی ریاست کی جانب سے مستقل اورسنگین نوعیت کے خطرات کا سامنا ہے تو مغربی سماج میں اسلام فوبیا کے بڑھتے ہوئے چیلنجز ہیں جو مسلم ثقافت کیلئے سنگین مسائل پیدا کررہی ہے۔ صرف مغرب پہ کیا موقوف مسلم آبادی کیلئے یہ چیلنجز مشرقی ممالک میں بھی اسی شدت اور سنگینی کے ساتھ موجود ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے کہ جہاں بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کیلئے عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی اور سماجی سطح پر بھی مسلم آبادی کیلئے پنپنے کے امکانات مسدود ہو چکے ہیں اور خطرے کی مستقل فضا میں بھارت کی مسلم آبادی اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران اور سر کردہ فورمز اس صورتحال سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ نہ تو مشرقِ وسطیٰ میں صہیونیت کے پیدا کردہ خطرات کو نظر انداز کیا جاسکتاہے اور نہ ہی دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے چیلنجز کو۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مسلم ممالک میں فکری اتحاد اور سیاسی ہم آہنگی ہونی چاہیے جو مسلم دنیا کو یک زبان ہو کر ا ن چیلنجز سے نمٹنے کے قابل بنائے۔ اسلامی تعاون تنظیم57 مسلم ریاستوں کا سب سے اہم فورم ہے ‘ جہاں سے منظور ہونے والی قرار داد یا اعلامیہ اتنا مؤثر ہونا چاہیے کہ دنیا کے ایوانوں میں اسکی بازگشت سنائی دے ‘ مگر باہمی اتحاد کی کمی اور جغرافیائی‘ سیاسی اور فکری اختلافات اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے مسلم ممالک خود کویک جان ثابت نہیں کر سکتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں