اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مشرقِ وسطیٰ کا آتش فشاں

ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات فردو‘ نطنز اور اصفہان پر امریکی حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان حملوں میں امریکہ کی جدید ترین اور طاقتور ترین جنگی مشینری اور مہارت کا استعمال کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس کارروائی میں 75 کے قریب میزائل اور بم داغے گئے جن میں 14 ایسے بنکر بسٹر بم بھی تھے جن کا اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ امریکہ کی اس سب سے بڑی بمباری کے نتیجے میں ایرانی تنصیبات کو کس حد تک نقصان پہنچا اس حوالے سے ملے جلے تاثرات ہیں۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ کر دیا‘ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ جنرل ڈین کین کہتے ہیں کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایران اب بھی جوہری صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں‘ جبکہ ایرانی حکام کہہ رہے ہیں کہ امریکی کارروائی سے جوہری تنصیبات کو تباہ کن نقصان نہیں پہنچا اورکہیں تابکاری کا اخراج بھی نہیں ہوا۔ تابکاری کا اخراج نہ ہونا انسانی اور ماحولیاتی حوالے سے خوش آئند ہے‘ مگر اس کارروائی کے بعد مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال میں آنے والی جوہری تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خطے میں‘ ایران کے ہمسایہ ممالک میں امریکی تنصیبات اور اہم فوجی اڈے واقع ہیں جن پر ایران کا جوابی حملہ جنگ کے سلسلے کو طول دینے کا بہانہ ثابت ہو گا۔ جوابی اقدام کے طور پر ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کی بندش بھی خارج از امکان نہیں۔ ایرانی پارلیمنٹ نے گزشتہ روز اس کی منظوری دے دی ہے۔ توانائی کی اس اہم ترین بین الاقوامی گزرگاہ کی بندش عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں پر زبردست اثر ڈال سکتی ہے‘ جبکہ خطے میں امریکی ٹھکانوں پر حملوں کے نتیجے میں ایران کو مزید امریکی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بظاہر ان اندیشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران کی جانب سے امریکہ کے خلاف کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا‘ اگرچہ اسرائیل کے خلاف اس نے اپنی کارروائیوں کو مزید تیز کر دیا ہے اور گزشتہ روز تل ابیب سمیت کئی شہروں پر مزید میزائل داغے گئے۔ ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے نتائج سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانے میں اسرائیل کی 13 جون کو تہران پر حملوں کی شروعات سے مختلف نہیں۔ اسرائیل نے عین اس وقت بلااشتعال حملہ کر دیا جبکہ اگلے ہی روز امریکہ اور ایران میں بات چیت طے تھی‘ گزشتہ روز امریکہ نے بھی وہی کچھ کیا کہ اس وقت جب ایرانی وزیر خارجہ یورپی ہم منصبوں سے ملاقات کر کے آ رہے تھے اور دوبارہ مذاکرات کی جانب بڑھنے کا امکان پیدا ہو رہا تھا اور خود صدر ٹرمپ حملے کا فیصلہ دو ہفتے مؤخر کرنے کا بیان دے چکے تھے مگر راتوں رات یہ حملہ کر دیا گیا۔ اس کارروائی کے زمینی اور مادی نقصانات کے علاوہ سفارتی کوششوں اور ملکوں اور رہنماؤں پر اعتماد کو جو نقصان ہوا ہے اسے بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ صدر ٹرمپ کی اس کارروائی سے اُن کی ’امن پسندی‘ کے دعوے کو بھی جوہری نقصان پہنچا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران مشرق وسطیٰ میں ’’احمقانہ لامتناہی جنگوں‘‘ میں ملوث ہونے پر ماضی کے امریکی صدور پر تنقید کرتے تھے اور انہوں نے امریکہ کو غیر ملکی تنازعات سے دور رکھنے اور جنگیں ختم کروانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر اپنے پہلے ہی سال ان کی جنگوں کی جانب رغبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ غزہ کی جنگ کا خاتمہ اور مسئلہ فلسطین کا کیا حل نکالتے‘ انہوں نے تو پورے مشرق وسطیٰ کو ایک بھیانک حالتِ جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دعوؤں کے برعکس اقدامات پر سوائے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے پوری دنیا دم بخود اور متشوش ہے جبکہ مشرق وسطیٰ دھکتے ہوئے آتش فشاں کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس کردار اور عمل کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے رواں سال کے نوبیل امن انعام کا مطالبہ کسی بھیانک مذاق سے کم نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں