اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سفارت کاری کو موقع دیں!

ایران کی جانب سے گزشتہ رات قطر اور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال بگڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ایران اسرائیل جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے بعد یہ جنگ عالمی اور علاقائی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکی۔ روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں کہ دنیا ایک بڑی تباہی سے ملی میٹرز کے فاصلے پر ہے۔مگریہ بیان گزشتہ ہفتے کا ہے جب ابھی تصادم صرف اسرائیل اور ایران کے مابین تھا‘ اتوار کے روز اس جنگی اکھاڑے میں امریکہ کی دھماکے دار انٹری کے بعد یہ فاصلہ مزیدکم ہو چکا ہے۔ ان حالات میں عالمی سطح پر حکمت اور تدبر ہی دنیا کو ممکنہ تباہی سے بچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں علاقائی اور عالمی رہنماؤں کو بروئے کار آنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے کیونکہ ایرا ن اسرائیل تنازع کے دیگر علاقائی ممالک کیلئے بھی خوفناک اثرات ہوں گے اور وہ ممالک جو اَب تک خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں‘ وہ اس جنگ کے معاشی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد مزید کشیدگی کے امکان پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور تمام متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے تنازع کو حل کریں۔ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے تحت ایران کے حقِ دفاع کی توثیق کرتا ہے‘ غیر ذمہ دارانہ اقدامات نے کشیدگی میں اضافہ کیا جو ایک بڑے تنازع کو جنم دے سکتی ہے۔ بلاشبہ دنیا اس وقت نازک‘ پیچیدہ اور خطرناک موڑ پر کھڑی ہے‘ جہاں مختلف ملکوں کے درمیان بڑھتا ہوا تنائو عالمی اضطراب اور بے یقینی کا سبب بن رہا ہے۔ مگر یہ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سیاسی بساط پر فیصلے محض جذبات یا ذاتی ترجیحات کی بنیاد پر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے اثرات کسی ایک ملک یا ایک خطے تک محدود رہتے ہیں۔ جنگ کے شعلے لپکتے ہیں توپوری دنیا کسی نہ کسی طرح اس سے متاثر ہوتی ہے۔مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اس جنگ کے پھیلائو کے نقصانات جانتے بوجھتے اسے روکنے کیلئے سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی‘ حالانکہ اس جنگ کے مضمرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ امریکی حملوں کے بعد دنیا بھر میں ایسے متعدد اقدامات دیکھنے میں آئے جو اس جغرافیائی کشیدگی کے سنگین اثرات کو اجاگر کرتے ہیں۔ آبنائے ہرمز کی بندش کے اعلان کے بعد متعدد تیل بردار جہازوں نے اپنا رخ تبدیل کر لیا جبکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں 13 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اوریہ قیمتیں پانچ ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ دوسری جانب متعدد عالمی ایئر لائنز نے مشرقِ وسطیٰ کے لیے اپنی پروازوں کو محدود یا معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جنگ کے مزید پھیلائو کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ جنگ بندی کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں ۔ یہ مان کر چلنا ہو گا کہ یہی وہ پشتہ ہے جو دنیا کو ایک بڑی تباہی سے بچاسکتا ہے۔ خدانخواستہ جنگ کا سیلاب اس پشتے کو پار کر گیا تو دنیا تیسری عالمی جنگ کے بالمقابل کھڑی ہو گی۔عالمی سیاسی اور جغرافیائی بندوبست کی بقا اسی میں ہے کہ عالمی طاقتیں دنیا پر مرضی مسلط کرنے کا رویہ ترک کریں اور ایک بار پھر اقوام متحدہ کو موقع دیں کہ بے یقینی ‘ بد اعتمادی‘ فساد اور عدم برداشت سے بھری ہوئی اس دنیا کے نظام کی اصلاح کیلئے عالمی اجتماعی دانش کو بروئے کار لایا جائے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کو درخور اعتنا نہ سمجھنے اور دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی ضد دنیا کو سوائے تباہی کے کچھ نہیں دے سکتی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں