اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

جنگ بندی اور توقعات

ایران اور اسرائیل کی جنگ بندی مشرق وسطیٰ سمیت پورے خطے کیلئے خوش آئند پیش رفت ہے۔ بارہ روزہ جنگ کے دوران دونوں ملکوں کا نقصان ہوا اور صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی تھی مزید نقصان متوقع تھا۔ خوش قسمتی سے دانش اور تحمل بروئے کار آیا اور دنیا کے اس حصے کے عوام کو منگل کی صبح صدر ٹرمپ کا یہ بیان دیکھنے کو ملا جس میں انہوں نے ایران اور اسرائیل کی مکمل جنگ بندی پر سبھی کو مبارکباد دی تھی۔ کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ طول پکڑنے اور پھیلنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی اور مشرق وسطیٰ کیلئے طویل مدتی سنگین مضمرات کا موجب بن سکتی تھی۔ یہ خطہ عالمی معیشت اور توانائی کی پیداوار میں اہم حصہ دار ہے؛ چنانچہ یہاں کشیدگی کے معاشی اثرات ساری دنیا کیلئے تھے۔ ایران اسرائیل جنگ کیساتھ ہی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس دوران قیمتیں پانچ ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں‘ تاہم منگل کے روز جنگ بندی کے اعلان کے بعد برینٹ کروڈ کی قیمتیں 65 ڈالر کے قریب آ گئیں۔ یہی قیمت اس جنگ کے شروع ہونے سے پہلے تھی۔ ایران اسرائیل جنگ میں دونوں ملکوں اور دنیا کیلئے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل اور ایران دونوں کو ایک دوسرے کی دفاعی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل امریکی اور یورپی دفاعی مشینری اور تکنیک سے مسلح ہے مگر دہائیوں سے پابندیوں کے شکار ایران نے اس جنگ میں اپنی میزائل ٹیکنالوجی کا جو مظاہرہ کیا اسرائیل کیلئے یہ غیر متوقع تھا۔ دوسری جانب اسرائیل نے ایران کے اندر اپنے خفیہ آپریشن کو جس مہارت‘ باریکی اور کامیابی سے آگے بڑھایا اس نے یقینا ایران کے کان کھڑے کر دیے ہوں گے۔ جنگ کے پہلے کئی روز ایران کے اندر سے اسرائیلی خفیہ ادارے کے گماشتوں کی تخریب کاری کے سنگین نتائج سامنے آئے۔ ایران نے میزائل حملوں سے اسرائیلی منصوبہ سازوں کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ لگ بھگ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے اور راستے میں متعدد دفاعی نظاموں کی چھلنی سے گزر کر آنے والے میزائل اسرائیل کی شہری آبادی‘ معاشی و عسکری مراکز اور تنصیبات پر تباہ کن حملے کرتے رہے۔ اسرائیلی اور ایرانی فضائیہ کا کوئی مقابلہ نہیں مگر دفاعی نظام کی بدولت اور بیلسٹک میزائلوں کے حملوں سے ایران اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہا۔ اس جنگ بندی نے دونوں ملکوں کیلئے موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس دشمنی کو سمیٹ سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ اندیشہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ بھال چکے اور کمزوریوں کو آزما چکے ہیں؛ چنانچہ آنے والے وقت میں بھی کمزور رگوں کو چھیڑتے رہیں گے۔ یہ صورتحال مشرق وسطیٰ کیلئے وسیع تر بے امنی کا سبب بنے گی اور پاکستان جیسے ایران کے ہمسائے بھی اس کی سنگینی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے۔ ضروری ہے کہ اس جنگ بندی کو مستقل امن کی بحالی کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس کیلئے مسئلہ فلسطین پر بھی توجہ دینا ہو گی‘ جو مشرق وسطیٰ میں بدامنی کی بنیاد ہے اور جس کے ہوتے ہوئے پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران اسرائیل جنگ بندی کیلئے جو قدم اٹھایا‘انہیں چاہیے کہ غزہ جنگ بندی کیلئے بھی سنجیدہ کوشش کریں اور فلسطین کے مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت کریں۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں جنگ وجدل کا دور ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکتا ہے۔ غیر معمولی مسائل کو حل کرنے کیلئے غیر معمولی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو بڑے فیصلے کرنے کی اہلیت‘ جرأت اور عقل رکھتی ہو۔ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کا بھی کئی بار ذکر کر چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین اپنے اپنے خطوں میں پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور بڑے پیمانے پر انسانی المیے ان مسائل سے جنم لے چکے ہیں۔ غزہ میں پچھلے بیس ماہ سے اسرائیل جو خون کی ہولی کھیل رہا ہے‘ اب اس خونیں سلسلے کا بھی اختتام ہونا چاہیے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں