اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مخصوص نشستیں‘ عدالتِ عظمیٰ کا حتمی فیصلہ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جمعہ کے روز مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے‘ پانچ کے مقابلے میں سات کی اکثریت سے 12جولائی 2024ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ گزشتہ سال عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو غیر پارلیمانی جماعت قرار دیتے ہوئے آزاد اراکین کی اس جماعت میں شمولیت کو رد کرتے ہوئے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا تھا جس پر سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ 14 مارچ 2024ء کو پشاور ہائیکورٹ نے یہ کہتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا کہ جو پارٹیاں عام انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں‘ خصوصی نشستوں پر ان کا حق نہیں بنتا۔ سنی اتحاد کونسل نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی‘ جہاں الیکشن سے قبل عدالتِ عظمیٰ کے ایک فیصلے کی الیکشن کمیشن کی جانب سے غلط تشریح کو اس سارے قضیے کا ذمہ دار گردانتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے آزاد ارکان کو پارٹی وابستگی کا دوبارہ حلف نامہ جمع کرانے اور الیکشن کمیشن کو پارٹی وابستگی کی تصدیق کیلئے سات دن کی مہلت دی۔ اب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے نظر ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے12 جولائی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55مخصوص نشستیں حکمران اتحاد کو مل جائیں گی۔ اس طرح قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں میں حزبِ اقتدار جبکہ کے پی میں حزبِ اختلاف کا کردار مضبوط ہو گا۔ حقیقی نشستوں سے زیادہ مخصوص نشستیں ملنے سے‘ جیسا کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں ہو گا‘ جہاں 25مخصوص نشستوں کی تقسیم اس طرح ہو گی کہ ایک نشست جیتنے والی جماعت کو دو مخصوص نشستیں‘ دو نشستیں جیتنے والی جماعتوں کو تین مخصوص نشستیں اور تین نشستیں جیتنے والی جماعتوں کو پانچ مخصوص نشستیں ملیں گی‘ اس سے متناسب نمائندگی کے اصول پر تو زد پڑ سکتی ہے‘ تاہم قانون کی رو سے یہ فیصلہ بالکل درست ہے۔ اپیل کے اس آخری فورم کے حتمی فیصلے کے بعد گزشتہ پندرہ ماہ سے جاری اس بحث کا اختتام ہو جائے گا اور نامکمل اسمبلیاں بھی مکمل ہو جائیں گی۔ البتہ یہ طے ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں اس فیصلے کی گونج تادیر باقی رہے گی اور اس کے عواقب وقت کیساتھ ہی اجاگر ہوں گے۔ دوسری جانب اس فیصلے میں سیاسی جماعتوں کے سیکھنے کیلئے بہت کچھ موجود ہے۔ دیکھا جائے تو یہ سارا معاملہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے مشکوک انعقاد سے شروع ہوا۔ تحریک انصاف کی جانب سے اپنی جماعت کے آئین سے روگردانی کرتے ہوئے پارٹی الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کی گئی۔ بعد ازاں اسے الیکشن کمیشن میں چیلنج کر دیا گیا جس کے بعد جماعت کی رکنیت عارضی طور پر معطل کی گئی اور انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔ عام انتخابات کے بعد بھی اس جماعت نے کئی غلطیاں کیں‘ جن میں سے ایک اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کی جانب سے ایک ایسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ ہے جس نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا تھا اور اُس جماعت کے چیئرمین نے انتخابی نشان رکھنے کے باوجود خود بھی آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔ پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے دوران اور میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں اور وکلا نے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے پیدا شدہ صورتحال میں اپنی غلطیوں کو تسلیم بھی کیا۔ بہرکیف جو ہونا تھا ہو چکا۔ لکیر پیٹنے کے بجائے اب آگے کی جانب نظر رکھنی چاہیے اور اس فیصلے کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کو اب آئندہ کے حوالے سے محتاط طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے اور اپنے مؤثر پارلیمانی کردار پر متوجہ ہونا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں