اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مذاکرات ، بحران سے نکلنے کا راستہ

پاکستان تحریک انصاف کے اسیر رہنمائوں نے جیل سے ایک کھلے خط میں مذاکرات کو بحران سے نکلنے کا واحد راستہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر فوری مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ گزشتہ روز تحریک انصاف کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں بھی جیل میں قید رہنمائوں کی مذاکراتی تجویز کی تائید کی گئی جس کے بعد پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہمارے بارے میں یہ تاثر غلط ہے کہ ہم مذاکرات نہیں کرنا چاہتے‘ مذاکرات ہونے چاہئیں مگر بامعنی مذاکرات ہوں۔ پارٹی کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں اسیر رہنمائوں کی مذاکراتی تجویز کی تائید سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پارٹی کے بیشتر رہنما احتجاجی سیاست کے بجائے پُرامن طریقے سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں خدا خدا کر کے حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا مگر یہ عمل تین سیاسی بیٹھکوں سے آگے نہ بڑھ سکا اور تحریک انصاف کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈز پر حکومت کی جانب سے عملدرآمد نہ ہونے پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ حکومت اور پی ٹی آئی میں باہمی تلخ رویوں کے پس منظر کیساتھ مذاکرات کے امکان کی زیادہ امیدتو بظاہر نظر نہیں آتی مگر یہ امر مسلّم ہے کہ مذاکرات اور سیاسی افہام وتفہیم کے بغیر سیاسی اور جمہوری گاڑی چل نہیں سکتی۔ ریاستی معاملات کو ہموار انداز میں آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا جائے تا کہ محاذ آرائی کی نذر ہونے والی قومی توانائی اور توجہات کو قومی ترقی کیلئے بروئے کار لایا جائے۔ جمہوری سیاست میں معاملات کا پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ جانا کوئی خوبی نہیں۔ یہ نہ سیاسی جماعتوں کے حق میں ہے اور نہ ملکی و قومی مفاد میں۔ آج کی حکومتی پارٹیاں کل اپوزیشن میں تھیں ‘یہی جمہوری سیاست کی خوبی ہے کہ اس میں دِنوں کا ہیر پھیر لگا رہتا ہے۔ سیاسی قیادت‘ جو ملکی و عالمی حالات کو عوام سے بہتر جاننے کی دعویدار ہوتی ہے‘ قومی مفاہمت اور ترقی میں اسکے کردار سے واقف ہو گی مگر کوئی بھی اپنی اَنا کے خول سے نکل کر مخالف فریق سے رابطہ نہیں کرنا چاہتا حالانکہ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں تلخ ترین تعلقات کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور پھر اسی سے آگے بڑھنے کی راہ نکلی۔ حالیہ ایران‘ امریکہ اور اسرائیل  جنگ بندی کی مثال سب کے سامنے ہے کہ عین اس وقت جب ایک دوسرے کی تنصیبات پر میزائل حملے جاری تھے‘ درونِ خانہ جنگ بندی اور قیامِ امن کیلئے مذاکرات بھی ہو رہے تھے۔ اسی مذاکراتی عمل کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی جنگ کا خاتمہ ہوا اور دنیا کو سکھ کا سانس میسر آیا۔ جنوبی افریقہ کی مثال بھی ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ مدبر افریقی رہنما نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلرک کے مابین بات چیت ہی نے جنوبی افریقہ سے نسل پرستی کے کالے قانون کے خاتمے اور اقتدار کی جمہوری منتقلی کی راہ ہموار کی۔ ہماری سیاسی قیادت کو بھی تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ماضی کی مذاکراتی کاوشوں سے سبق سیکھتے ہوئے اس عمل کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اب تک کی صورتحال میں فریقین میں باہمی اعتماد کی کمی واضح ہے جس کے سبب کوئی بھی دوسرے پر بھروسا کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ اس صورتحال سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سنجیدہ اور جہاں دیدہ افراد پر مشتمل مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں جو مذاکراتی عمل کا سلسلہ فوری شروع کریں۔ گزشتہ تین برس میں سیاسی انتشار ملک وقوم سے بہت بھاری قیمت وصول کر چکا‘ اب اس کا سلسلہ بند ہونا چاہیے‘ لہٰذا سیاسی قیادت اب اپنے گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک وقوم کے بہتر مستقبل کا سوچے اور نیک نیتی سے مذاکراتی سلسلے کا دوبارہ آغاز کرے تاکہ پوری قوم اس اضطراب‘ جمود اور بحران سے باہر نکل سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں