اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

واقعہ کربلااور درسِ حسینؓ

شہادتِ حسین ؓ حق و باطل کی میزان ‘ تاریخ کا ضمیر اور حق پرستوں کی ڈھارس ہے۔ حق و باطل کا معرکہ ازل سے ہے اور تاابد رہے گا۔اما م عالی مقام حضرت حسین ؓ کی شہادت کا درس یہ ہے کہ باطل کے مقابلے میں حق کے ساتھ تمسک اختیار کرو‘ اس سے قطع نظر کہ اس کی قیمت کیا ہے اور اس میں دنیاوی اعتبار سے کتنے خطرات پوشیدہ ہیں۔ حق کا ساتھ قربانی مانگتا ہے‘ یہ قربانی جانی و مالی بھی ہو سکتی ہے اور فکری‘طبعی اور مزاجی۔ جھوٹ مکرو فریب ‘دھوکہ ‘ لالچ‘ ناانصافی‘ حق تلفی یہ سبھی ظلم ہی کی صورتیں ہیں‘ ان سے اپنا دامن بچانے اور سماج کو ان برائیوں سے پاک کرنے کے لیے ہمیں ہر ممکن طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہمیشہ جانی یا مالی قربانی ہی مانگتا ہو۔ سب سے پہلے آدمی کوشعوری سطح پر شر کی قوتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہوتی ہے ‘ باقی اقدامات اس کے بعد آتے ہیں۔ شہادت ِ حسین ؓامتِ مسلمہ کے لیے اپنے دامن میں بے پناہ اخلاقی‘ سیاسی ‘ اجتماعی اور انفرادی دروس رکھتی ہے‘ سب سے بڑا درس یہ ہے کہ ہم نے اپنے سماج کو کس طرح حق اور انصاف کی اصولوں پر استوار کرنا ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کی قربانی کا اس کے سوا کوئی مقصد نہ تھا کہ وہ اسلامی معاشرے کو ایک ایسی حکومت کے وبال سے بچانا چاہتے تھے جو مسلم سماج کی حکمرانی کی ظاہری و باطنی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ آج کے فرد کے لیے اسوۂ حسین ؓ کا یہ پہلو غیر معمولی طور پر اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ حکومت سازی کے عمل میں فرد کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ امام حسین ؓ نے اپنی اور اپنے اعزہ و اقارب کی جانوں کی قربانی دے کر اپنا یہ فرض ادا کیا۔ آج کا فرد جسے ووٹ کا حق حاصل ہے اپنے ووٹ کے ذریعے اہل حکمران کو لانے اور نااہل کو اس منصب سے دور رکھنے میں اپنا کردار اداکرسکتا ہے۔یہی سوچ کسی سماج کی اصلاح کی محرک ہو سکتی ہے اور ریاست کو اُس خط پر لا سکتی ہے جو اسلام کا حقیقی راستہ ہے۔ ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ افراد اپنی سطح پر عمل سے کتراتے ہیں مگر اس کے باوجود مثالی معاشرے کی تمنا کرتے ہیں۔ امام عالی مقام حسین ؓ نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے فرد کو حق کی خاطراپنا کردار ادا کرنا ہو تا ہے۔ امام حسینؓ نے اپنے عظیم کردار سے یہ ثابت کیا کہ اُن لوگوں کے لیے ذلت کی موت ہے جو ناحق کے ساتھ سمجھوتے کرتے‘ ملک و قوم کے حق میں اپنا کردار ادا کرنے سے گھبراتے اور زندہ رہنے کے لیے تحقیر برداشت کرتے ہیں۔ کربلا کے میدان میں بہنے والے مقدس خون کے کئی ایک اہداف تھے۔ ان میں سب سے بڑا ہدف اُس جہالت کی تاریکی کا خاتمہ تھا جس نے اُس معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہے۔ غزہ قریب دو برس سے مسلسل صہیونی دہشت گردی کا تختۂ مشق بنا ہوا ہے۔ مظلوم فلسطینی آبادی کے انسانی حقوق کی مسلسل پامالی جاری ہے ۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے فلسطینیوں کے کسی انسانی حق کا تحفظ نہیں کر سکے ۔ مسلم ریاستیں اوربااثر ممالک منقارِ زیر پر ہیں۔ اگر کہیں سے کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو ایسی مجہول اور بے اثر کہ جارح قوتوں پر کیا اثر ڈالے خود اپنے لوگوں کا اعتماد بحال نہیں کرپاتی۔ ان حالات میں امام عالی مقام حضرت حسینؓکی قربانی ان مظلوموں کے لیے ڈھارس ہے جو غزہ کی پٹی میں بے جرم و خطااور بھوکے پیاسے مارے جارہے ہیں۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں صورتحال یہ ہے کہ ناجائز قابض بھارتی حکومت نے کربلا کی یاد پر پابندی لگانے کے لیے یوم عاشو ر کو کرفیو نافذ کر دیا ہے ۔ وہ مظلوم تو مظلومِ کربلا کی شہادت سے توانائی اور روشنی لے کر اپنے لیے ایک راہ متعین کر لیتے ہیں ‘ قربانیاں دیتے اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘سوال یہ ہے کہ آباد گھروں اور محفوظ ریاستوں کے مکینوں کی کیا اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں؟ اس غیر فعالیت اور لاتعلقی کے ساتھ ہم فلسفۂ کربلا کو سمجھنے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ ضروری ہے کہ سماجی اور قومی سطح پر ہمارا حق ‘ انصاف اور عدل کے ساتھ تعلق گہرا ہو اور ہم ان اصولوں کی پیروی کریں جن کے لیے امام عالی مقامؓ نے 10محرم61ھ کو میدانِ کربلا میں شہادت قبول کی۔ یاد رکھیں کہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں ‘ ظلم و ناانصافی کے خلاف حق کے قیام کا استعارہ ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ کربلا صرف ایک معرکہ نہیں ‘ یہ تاریخ انسانیت کا وہ درخشاں باب ہے جو رہتی دنیا تک حق و باطل کے فرق کو واضح کرتا رہے گا۔ یہ مظلوم کی ڈھارس اور باضمیر انسان کی سوچ کا محور ہے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ تاریخ اسلا م کی اس عظیم قربانی کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جائے‘ حسینؓ کے کردار کا شعور حاصل کیا جائے اوراُن کی قربانی کے جذبے اور حق کی خاطر قیام کو مشعلِ راہ بنایا جائے۔واقعہ ٔ کربلا کا شعور ہمیں ناانصافی اور ظلم و بربریت کے مقابل حق اور صداقت کا علم بلند کرنے کا حوصلہ دیتا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دینی اور سماجی فریضے کی حقیقت سے آگاہی کا ذریعہ ہے۔ مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خاں کا یہ شعر حسب حال ہے کہ 

ہم راہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے

اور قافلہ سالار حسین ابنِ علیؓ ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں