اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سائبر سکیورٹی کے مسائل

جدید ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی جہاں دنیا کو سہولت‘ رابطے کی نئی جہات اور ترقی کی نئی راہیں فراہم کر رہی ہے وہیں سائبر سکیورٹی کے محاذ پر خطرات بھی نت نئے روپ اختیار کر رہے ہیں۔ سائبر سکیورٹی سے متعلق ایک عالمی ادارے کے مطابق اب سائبر حملہ آور مصنوعی ذہانت‘ پروڈکٹیویٹی ٹولز اور مقبول سافٹ ویئرز کے نام پر جعلی پروگرامز کے ذریعے کاروباری اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ہے جہاں رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران آٹھ ہزار سے زائد کاروباری ادارے ایسے سائبر حملوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی سائبر سکیورٹی کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی‘ نہ اس حوالے سے قانونی کارروائی تیز ہے‘ نہ ہی ادارہ جاتی انفراسٹرکچر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور نجی کاروباری اداروں کی اکثریت اب بھی سائبر تحفظ کو اضافی یا غیرضروری خرچ سمجھتی ہے۔ موجودہ عالمی تناظر میں جب مصنوعی ذہانت کے جعلی ورژنز‘ فشنگ لنکس‘ ایڈویئر اور بدنیتی پر مبنی سافٹ ویئرز کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو نجی کاروباری اداروں کو بھی اپنی ڈیجیٹل سلامتی کو پہلی ترجیح بنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ سائبر سکیورٹی کے قومی فریم ورک کو ازسرنو مرتب کرے اور سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے جدید ترین انفراسٹرکچر‘ قانون سازی اور مہارت کو فروغ دیا جائے کیونکہ  سائبر حملے صرف ڈیجیٹل خطرہ نہیں بلکہ قومی سلامتی‘ اقتصادی استحکام اور عوامی اعتماد کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں