اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بلوچستان میں بد امنی

بلوچستان کی وزارتِ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران صوبے میں دہشت گردی کے 501 واقعات ہوئے‘ جن میں 257 افراد جاں بحق اور 492 زخمی ہوئے۔رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے 30 جون تک دہشتگردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا جبکہ بلوچستان میں آباد کاروں کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کے واقعات 100 فیصد بڑھ گئے۔اس قسم کے چودہ واقعات میں 52 افراد جاں بحق اور 11 زخمی ہوئے۔بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہے مگردہشتگردی‘ بد امنی اور خوف و ہراس جہاں عوامی زندگی کیلئے خطرے کا موجب ہے وہیں معاشی سرگرمیوں کیلئے بھی مشکلات میں اضافہ ہو رہا۔ دہشتگردوں کی جانب سے بین الاضلاعی سڑکوں پر ناکہ بندی کے واقعات خوفناک صورت اختیار کر چکے ہیں‘ ان حالات میں تجارتی سرگرمیوں پر منفی اثرات خارج از امکان نہیں۔ اس کے اثرات بلوچستان کے لوگوں کی معیشت کیلئے مزید خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ سی پیک کے تحت بلوچستا ن میں کئی اہم سڑکیں‘ پُل اور انفراسٹرکچر کے دیگر منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بھی بلوچستان میں سڑکوں اور دیگر منصوبوں کیلئے بجٹ میں رقوم مختص کی گئی ہیں۔ کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور کئی تکمیل کے مراحل میں ہیں جن کی تکمیل سے بلوچستان کی تزویراتی اور تجارتی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔معاشی سرگرمیاں روزگار کے مواقع اور مالی خوشحالی لے کر آتی ہیں جس سے یقینا پورے پاکستان کے عوام فائدہ اٹھائیں گے مگر اس ترقی کے ثمرات میں بلوچ عوام کا حصہ دوسروں سے زیادہ ہو گا۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں بدیہی حقیقت ہے کہ معاشی ترقی اوروسائل کو بروئے کار لانے کے جدید طریقے چند برسوں میں کایا پلٹ دیتے ہیں۔ قوی امید ہے کہ بلوچستان کے معدنی وسائل کی ترقی‘ جدید بندر گاہ کی وسعت اور زمینی روابط کی بدولت بلوچستان کی تاریخی محرومی اور پسماندگی کا بہت جلد ازالہ ممکن ہے۔ آنے والا وقت اس حوالے سے بہت پُر امید اور امکانات سے بھر پور ہے۔ مگر بد امنی اس ترقی کے سفر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کے محرکات ڈھکے چھپے نہیں۔ حکومت کی جانب سے مسلسل اس کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے بھارت ہے۔ اور یہ محض کہنے کی حد تک نہیں بلکہ بھارتی حکام کے اپنے بیان‘ اقدامات اور ظاہری و خفیہ کارروائیاں اس کا ثبوت ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی ذمہ داری فتنہ الہندوستان پر عائد ہوتی ہے۔ بلوچستان میں بھارتی دراندازی اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے صرف دفاعی محاذ پر اقدامات کافی نہیں‘ سیاسی اور عوامی سطح پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔دہشت گردوں کے محرکات کو سمجھنے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان کے عوام میں منافرت اور بے یقینی کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شناخت کر کے نشانہ بنانے کی حکمت عملی اس حوالے سے بالکل واضح ہے اور اس سے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ دہشتگرد ان بھیانک واقعات سے کیا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں سیاسی اور عوامی مکالمے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ بلوچ قیادت کو بھی متحرک کرنا ہو گا۔حکومت بلوچستان کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ صوبوں کے پاس اب اس قدر وسائل اور اختیارات ہیں کہ داخلی سطح پر امن وامان کا مؤثر بندوبست کر سکیں۔امن دشمن عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپناتے ہوئے انہیں قانون کے شکنجے میں لانا ہوگا۔ اگرچہ غیر ملکی سپانسرڈ دہشت گردوں کی جانب سے چیلنجز بہت بڑے ہیں‘ مگر مشترکہ کوششوں اور قومی یکجہتی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔  بلوچستان کا امن پاکستان کی ترقی اور استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔ مؤثر اقدامات کیے جائیں تو وہ دن دور نہیں جب بلوچستان امن و ترقی کا گہوارہ بنے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں