اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

اربن فلڈنگ اور تباہ کاریاں

مون سون کی بارشوں نے پنجاب کے مختلف شہروں میں تباہی مچا دی ہے۔ پنجاب بھر میں چھتیں گرنے‘ کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات میں 25 سے زائد افراد جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔ رات بھر برسنے والی بارش سے لاہور سمیت متعدد شہروں میں سیوریج لائنیں بارش کے پانی کے نکاس کا دبائو برداشت نہ کر سکیں اور متعدد شاہراہوں پر شگاف پڑ گئے۔ کشمیر سے کراچی تک پورا ملک اس وقت بارشوں کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے۔ مون سون کی بارشیں اگرچہ ہر سال کا معمول ہیں تاہم متعلقہ محکموں کی غفلت‘ سست روی اور عوام کی لاپروائی کا خمیازہ سینکڑوں قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 26 جون سے جاری مون سون سپیل میں اب تک 124 افراد جاں بحق اور 264 زخمی ہو چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مون سون میں بارشوں سے انسانی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچنا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی جانب سے پیشگی اقدامات کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر ان اقدامات کی قلعی پہلی بارشوں سے ہونے والے نقصانات ہی سے کھل جاتی ہے۔ ہر چند ماہ بعد بارشوں سے شہری علاقوں کا زیرِ آب آ جانا اور مون سون میں سیلاب الرٹ آبی پالیسی پر نظر ثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکام کی جانب سے بارشوں کو ایک قدرتی آفت قرار دیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کا رویہ ان افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جن کے گھر اور املاک پانی میں ڈوب گئے اور جو بے آسرا بیٹھے ہیں‘ انہیں نیویارک میں بارشوں سے ہونے والی تباہی کا بتا کر دلاسا نہیں دیا جاسکتا ۔ لاہور میں اوسطاً 25 انچ کے لگ بھگ (628 ملی لیٹر) سالانہ بارش ہوتی ہے جبکہ نیویارک میں سالانہ 45 سے 50انچ بارش ہوتی ہے‘ لاہور سے دو گنا زیادہ‘ جبکہ 30 سے 100 انچ تک پڑنے والی برف اس کے علاوہ ہے۔ یوں بھی کسی شہر کے ایک بار زیر آب آنے اور ہر سال زیر آب آنے کے حالات میں بہت فرق ہے۔ نیویارک کے بجائے اگر ہم نیدرلینڈز کے آبی سسٹم کا جائزہ لیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔ ایک ایسا ملک‘ جس کا بیشتر حصہ سطحِ سمندر سے نیچے ہے مگر اس کے باوجود وہاں شاذ و نادر ہی سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اس کا سبب ہے نیدرلینڈز کا کششِ ثقل کے اصول اور جدید ٹیکنالوجی سے بنا وہ آبی نظام‘ جو بارشوں کے پانی کو یکجا نہیں ہونے دیتا۔ ماہرین زیر زمین آبی سرنگوں کے نظام کی افادیت بھی اجاگر کر چکے ہیں جس سے ہائی فلڈ زونز کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اربن فلڈنگ سے بچنے کیلئے پوری دنیا میں یہ تکنیک استعمال ہو رہی ہے مگر ہمارے ہاں یہ منصوبہ چند شہروں میں آزمائشی حد سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ برساتی جھیلوں اور تالاب کا رجحان بھی ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔حالانکہ یہ اگر ہوں تو ان سے زیر زمین سطح آب ‘ جو ہمارے شہری علاقوں میں تیزی سے نیچے جارہی ہے‘ اسے بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ ہمیں اپنے موسمیاتی پیٹرن کا عمیق مطالعہ کرکے ضرورت کے مطابق منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں سینکڑوں جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے اور اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ بارش سے ہونے والے حادثات کو دیکھا جائے تو ان میں انتظامی سے زیادہ انسانی غفلت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے مون سون سے قبل احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر شہریوں کی جانب سے حکومتی ہدایات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اگر عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑنے کے بجائے اپنے تئیں بھی برسات کے موسم میں تھوڑی سی احتیاط کریں تو بارشوں سے ہونیوالے جانی نقصان کی شرح کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں