ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات
پنجاب میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے 20 سے 25 جولائی کے دوران مون سون بارشوں کے چوتھے سپیل‘ بیشتر اضلاع میں تیز آندھی‘ گرد آلود ہواؤں اور مزید بارشوں کا الرٹ جاری کیا ہے جبکہ شہریوں کوبھی خراب موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور آندھی وطوفان کی صورتحال میں محفوظ مقامات پر رہنے اور غیر ضروری سفر سے گریز کرنے کی ہدایات کی گئی ہیں۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے یہ الرٹ ایسے حالات میں جاری کیا گیا جب 17 جولائی کو پنجاب میں طوفانی بارشوں سے 63 افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ متعدد شہر اور دیہات زیرِ آب آ گئے۔ مون سون کے تین سپیل میں 26 جون سے اب تک لگ بھگ 200 افراد جاں بحق اور ساڑھے پانچ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ سیلابی صورتحال میں وزیراعظم کے زیرصدارت ہنگامی اجلاس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رواں سال 40 فیصد تک زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جبکہ جون‘ جولائی میں گزشتہ برس کی نسبت 200 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ اگر گزشتہ چند سال کے موسمیاتی پیٹرن کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں مون سون اب بارشوں کی شدت کا دوسرا نام ہے۔ 2022ء میں پاکستان کو بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 2023ء اور 2024ء میں بالترتیب 16 فیصد اور 24 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ موسمیاتی ماہرین کئی ماہ پہلے سے رواں سال طوفانی بارشوں کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے اور اس حوالے سے انتظامیہ کو فعال بھی کیا گیا مگر گھنٹوں مسلسل جاری رہنے بارشوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا موجودہ انفراسٹرکچر موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے جڑی آفات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کلاؤڈ برسٹ کے واقعات یا طوفانی بارشیں تو ہنگامی حالات پیدا کرتی ہی ہیں‘ نکاسیِ آب کا ناقص نظام بھی اربن فلڈنگ کا باعث بنتا ہے۔ ندی نالوں کی گزر گاہوں میں بغیرمنصوبہ بندی کے بنی آبادیاں پانی کے اخراج میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والی آفات بسا اوقات اتنی اچانک ہوتی ہیں کہ مناسب منصوبہ بندی کا وقت نہیں مل پاتا‘ جیسے امریکی ریاست ٹیکساس میں اچانک آنے والا سیلاب 150سے زیادہ انسانوں کو نگل گیا‘ تاہم پلاننگ کے بغیر شہروں کی بے ہنگم توسیع‘ ندی نالوں پر قبضے اور تجاوزات‘ سیلابی نالوں کی صفائی میں غفلت اور پشتوں کی عدم مضبوطی سمیت متعدد وجوہات ہیں جنہوں نے بارشوں کی ہلاکت آفرینی میں اضافہ کیا ہے۔ اگر بارشوں سے ہونے والی اموات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 60 فیصد سے زائد اموات کا سبب عمارتوں اور چھتوں کا انہدام تھا‘ جو سراسر انسانی غفلت ہے۔ اسی طرح عوامی آگاہی کی کمی کے سبب لوگ کھلی جگہوں اور ندی نالوں میں کچرا پھینک کر پانی کے نکاس کا راستہ بند کر دیتے ہیں جس سے کم شدت کی بارشیں بھی شہری ودیہی علاقوں میں تباہ کن سیلاب کا سبب بن جاتی ہیں۔ موسمیات اور دیگر متعلقہ محکموں کی جانب سے الرٹ جاری کرنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ شہری بارشوں کے اوقات میں بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے اجتناب کریں مگر ہمارے ہاں الٹا ہی چلن ہے۔ عوام کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہو گا اور انتظامیہ کیلئے مزید مسائل پیدا کرنے کے بجائے حتی الامکان احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یہ طوفانی بارشیں موسمیاتی تغیرات کا اظہار ہیں‘ ان سے نمٹنے کے لیے طویل المدت منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب تمام شہروں میں ٹائون پلاننگ کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اس حوالے سے شہری انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے‘ برساتی جھیلوں کا قیام‘نکاسی آب کے نظام میں وسعت اور کچر ے کے مسائل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بارشوں کی شدت انسانی کنٹرول میں نہیں ہے مگر ان بدلتے حالات کو اپنے لیے موافق ضرور بنایا جا سکتا ہے۔