اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کی لہر

 خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر پاکستان کے امن اور سلامتی کیلئے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے علاقے ہنگو میں ایک کارروائی کے دوران نو دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیاجبکہ اس سے ایک رو ز قبل سکیورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد سے خوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے پانچ دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ یہ واقعات اس تلخ حقیقت کوواضح کرتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین بدستور پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ دو دہائیوں پر محیط شورش اور خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد افغان سرزمین سے دہشت گردوں کی سہولت کاری ختم کی جائے گی ‘مگر طالبان حکومت اپنی یقین دہانیوں پر پورا نہیں اُتر سکی اورٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ گروہ افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے اپنے نیٹ ورک کو منظم کرتے رہے ہیں اور سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ پاکستان نے کئی بار طالبان حکومت کو اس حوالے سے خبردار کیا ہے مگر یہ انتباہ بے اثر ثابت ہوئے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہاں سرگرم شدت پسند گروہوں کو بھی سرحد پار کے عناصر کی حمایت حاصل ہے۔ اس سہولت کاری کی وجہ سے افغانستان کا ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر تشخص قائم نہیں ہو سکا ۔ افغانستان میں ترقی کے امکانات موجود ہیں مگر ترقی پائیدار امن کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کو قائم ہوئے اگلے ماہ چار برس ہو جائیں گے مگر ان چار برسوں میں حالات توقعات کے برعکس رہے ہیں۔ شدت پسندگروہ تقویت اختیار کررہے ہیں اور سرحد پار دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 2021ء میں‘ جب طالبان نے افغانستان میں حکومت سنبھالی تھی پاکستان میں دہشت گردی کے 207 واقعات ہوئے تھے جن میں 355افراد جاں بحق ہوئے‘ مگر اس کے بعدیہاں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صوبہ بلوچستان کی وزارتِ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے نصف کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے 501واقعات ہوئے جن میں 257افراد جاں بحق اور 492 زخمی ہوئے۔ اس اندوہناک شماریات میں خیبر پختونخوا میں ہونیوالی دہشت گردی کے واقعات شامل نہیں جو کہ دہشت گردی کا دوسرا بڑا ہدف ہے۔ تاہم آزاد ذرائع کا اندازہ ہے کہ رواں سال کے پہلے نصف کے دوران ملک میں دہشت گردی سے مجموعی طور پر 900سے زائد شہادتیں ہوئیں۔ اس دوران دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز مسلسل کارروائیوں میں مصروف رہیں اور ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک دہشت گردوں کی تعداد900سے زیادہ رہی۔ پاکستان کے سکیورٹی چیلنجز میں افغانستان کا براہِ راست اور بنیادی کردار ہے‘ جس سے ہر گز صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف قومی دفاع کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ اس جدوجہد میں صرف میدانِ کارزار میں نہیں بلکہ سفارتی‘ علاقائی اور عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے اقدامات ضروری ہیں تا کہ عالمی برادری کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی اور خطے کی سکیورٹی کیلئے خطرات پید اکر رہی ہے۔ دہشت گردی کی لہر قومی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ریاست کے تمام اداروں کو یکجان ہو کر اس کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔ ضروری ہے کہ پاکستان اپنی پالیسیوں میں سختی لائے اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کیلئے ہر سطح پر مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے۔ امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب دہشت گردوں کیلئے سرحد پار کوئی محفوظ پناہ گاہ باقی نہ رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں