پروٹیکٹڈ کیٹگری کا خاتمہ
حکومت نے ماہانہ 200یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو دی جانے والی رعایت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہریہ مالی نظم و ضبط کے قیام کی کوشش ہے لیکن اس کا فوری اور براہِ راست اثر اُن لاکھوں غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں پر پڑے گا جو پہلے ہی مہنگائی‘ بیروزگاری اور بے یقینی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ملک میں بجلی کے تین کروڑ صارفین میں سے 58 فیصدماہانہ 200 یونٹ استعمال کرنیوالے ہیں جو ظاہر ہے متوسط یا نچلے آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان صارفین کو بجلی کی مد میں ملنے والی رعایت کا خاتمہ ان کے مالی بوجھ میں مزید اضافہ کرے گا۔ بجلی کے خسارے کی اصل وجہ سبسڈی نہیں‘ بجلی کی چوری‘ بلوں کی عدم ادائیگی اور بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونیوالے 17سے 20فیصد تک لائن لاسز ہے۔ ملک میں 60فیصد بجلی اب بھی مہنگے درآمدی ایندھن سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر حکومت واقعی توانائی کے بحران کو حل کرنا چاہتی ہے تو اسے عوام سے یہ ریلیف چھیننے کے بجائے شفاف بلنگ‘ سمارٹ میٹرنگ‘ گرڈ اصلاحات‘ بجلی چوری کیخلاف سخت کارروائی اور متبادل توانائی ذرائع پر تیز رفتار سرمایہ کاری جیسے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔ پروٹیکٹڈ صارفین کے تحفظ کے بغیر ‘ اصلاحات عوام کیلئے ایک اور معاشی دھچکا ثابت ہوں گی اور یہ عمل عوامی معاشی مسائل اور مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ بنے گا۔