پاک چین تزویراتی ہم آہنگی
آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورۂ چین اور بیجنگ میں چینی سیاسی و عسکری قیادت سے ہونے والی اہم ملاقاتیں نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان گہرے اور قابلِ اعتماد تعلقات کی مظہر ہیں بلکہ ایک ایسی شراکت داری کا اعادہ بھی کرتی ہیں جو تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی منظرنامے میں غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی و عسکری تعلقات میں بڑھتی ہوئی گہرائی کا عکاس ہے اور خطے میں ابھرتے ہوئے ہائبرڈ خطرات اور سرحد پار سے درپیش چیلنجز کے مقابل مربوط حکمت عملیوں کی تشکیل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان رشتہ صرف سفارتی سطح تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ جہت سٹریٹجک پارٹنرشپ میں بدل چکا ہے جس میں دفاع‘ معیشت‘ انٹیلی جنس تعاون‘ خطے میں استحکام اور جیو پولیٹکل حرکیات کے تناظر میں ہم آہنگی شامل ہے۔ آرمی چیف کے حالیہ دورے میں جس انداز سے دونوں ملکوں نے ہائبرڈ اور سرحد پار خطرات کے تدارک کیلئے تزویراتی ہم آہنگی اور عملی اشتراک کو فروغ دینے پر اتفاق کیا وہ ایک بڑی سفارتی اور دفاعی پیش رفت ہے۔ یہ اس امر کا اعتراف ہے کہ خطے میں پائیدار سلامتی کیلئے پاک چین اعلیٰ سطحی روابط اور مشاورت کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ پاک چین ہم آہنگی اورتزویراتی شراکت داری نہ صرف عسکری سطح پر بلکہ سفارتی اور معاشی سطح پر بھی ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعاون کا ایک شاندارنمونہ اور خطے میں اقتصادی استحکام اور ترقی کا جامع ویژن ہے ‘تاہم اس اہم معاشی منصوبے کو داخلی اور خارجی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور سکیورٹی خطرات‘ بین الاقوامی سازشوں اور علاقائی کشمکش پیدا کر کے ترقی کے اس عمل کی رفتار سست کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔آرمی چیف کے دورہ ٔ چین کے موقع پر خطے اور عالمی سطح پر بدلتے سیاسی منظرنامے‘ اقتصادی راہداری کے تحت روابط کے اقدامات اور مشترکہ جغرافیائی و سیاسی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مربوط ردِعمل کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس امر پر زور دیا جانا کہ جیوپولیٹکل چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مربوط اور مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے گی‘ ایک بروقت اور مؤثراقدام ہے جو سی پیک کو درپیش چیلنجز کا حل فراہم کرے گا۔ یہ امر نہایت حوصلہ افزا ہے کہ چینی قیادت نے پاکستان کیساتھ دفاعی شراکت داری پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چین کی فوجی قیادت کی طرف سے گہرے تعلقات کے اظہار نے واضح کر دیا ہے کہ بیجنگ اسلام آباد کو صرف ایک علاقائی اتحادی کے طور پر نہیں بلکہ ایک سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ اعتماد عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت اور صلاحیت کا اعتراف ہے۔ موجودہ بین الاقوامی حالات میں جب دنیا ایک بار پھر دھڑے بندی کا شکار ہے اور بلاکس کی سیاست اُبھر رہی ہے پاکستان کیلئے نہایت ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی میں استحکام پیدا کیا جائے۔ چین کے ساتھ پاکستانی شراکت داری کو صرف وقتی مفاد یا معاشی تعاون کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا‘ یہ ایک پائیدار ‘ ہمہ گیر اور ہمہ جہت سٹریٹجک تعلق ہے جو سدا بہار ہے‘ سرد گرم چشیدہ ہے نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھ سکتا ہے بلکہ مستقبل میں درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے راہیں بھی متعین کرے گا۔ آرمی چیف کا یہ دورہ سفارتی سطح پر بھی ایک مضبوط پیغام ہے کہ پاکستان متوازن‘ مفاہمتی اور خودمختار پالیسی کا حامی ہے۔ چین کے ساتھ اس تزویراتی ہم آہنگی کو مزید گہرا کرنے کیلئے ہمیں دفاعی‘ انٹیلی جنس‘ ٹیکنالوجی اور معیشت کے شعبوں میں عملی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ شراکت داری زمینی حقائق میں ڈھل سکے اور اس سے قومی مفاد میں بھر پور ثمرات سمیٹے جا سکیں۔ یہی ہم آہنگی اور بصیرت خطے میں امن‘ ترقی اور پائیدار سلامتی کی ضمانت بن سکتی ہے۔