بجلی چوری
پاور ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ میں دو سال کے دوران صرف تین ریجن میں پانچ ارب 78 کروڑ روپے مالیت کی بجلی چوری کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو لاکھ 62 ہزار 740 صارفین بجلی چوری میں ملوث پائے گئے۔ لاہور‘ پشاور اور حیدر آباد ریجن اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق ڈائریکٹ کنکشن‘ کنڈے‘ میٹر ٹیمپرنگ اور جعلی میٹرز کے ذریعے بجلی چوری کی گئی۔ یہ اعداد و شمار یقینا ہوشربا ہیں مگر یہ معاملہ بعید از قیاس ہے کہ بجلی کی ترسیلی کمپنیاں اس چوری سے ناواقف تھیں یا اس میں ان کے اپنے اہلکار ملوث نہیں تھے۔ درحقیقت بجلی چوری ایک باقاعدہ دھندہ بن چکا ہے اور ترسیلی کمپنیاں اپنے خسارے کو بھی بجلی چوری کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح چھوٹے بجلی چوروں کے خلاف تو فوری کارروائی ہو جاتی ہے مگر بڑے چوروں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے‘ اس کا تقریباً سارا ریکارڈ متعلقہ حکام کے پاس موجود ہوتا ہے‘ مسئلہ صرف قانون کے نفاذ کا ہے۔ لازم ہے کہ حکام بجلی چوری والے علاقوں کو لوڈشیڈنگ زون میں شامل کر کے اجتماعی سزا دینے کے بجائے بجلی چوروں کے خلاف بلاتاخیر کارروائی عمل میں لائیں اور بجلی چوری کی روک تھام کر کے پاور سیکٹر کے خسارے کو بھی کم کرنے کی کوشش کریں۔