اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

زرعی شعبے کی زبوں حالی

ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمارا زراعت کا شعبہ اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ ایک خبر کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران کسانوں کو حکومتی غفلت‘ ناقص پالیسی سازی اور بڑھتی پیداواری لاگت کی وجہ سے 1260ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مقامی پیداوار متاثر ہونے کی وجہ سے اسی مدت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں زرعی اجناس کی برآمدات کی مالیت میں بھی ایک ارب ڈالر کی کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ کھاد‘ ڈیزل‘ بجلی اور دیگر زرعی مداخل کی ناقابلِ برداشت قیمتوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں غیرمعمولی کمی واقع ہورہی ہے۔ کپاس کی مقامی پیداوار میں 60 فیصد سے زائد کمی کی وجہ سے ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے مقامی پیداوار سے تقریباً 300 فیصد سے زائد کپاس درآمد کی جا چکی جس پر اربوں ڈالر زرِمبادلہ خرچ ہوا ہے۔ زرعی شعبے کی بحالی کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بیانات کی حد تک توکافی متحرک ہیں لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بدقسمتی سے حکومت زرعی تحقیق‘ کھاد اور بیج کی بہتری اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔ ضروری ہے کہ ملک میں زرعی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے فوری اقدامات کیے جائیں جن میں سستے اور معیاری کھاد اور بیج کی فراہمی‘ آزاد پرائس کمیشن کا قیام‘ تحقیقاتی مراکز کی بحالی اور موسمیاتی خطرات سے بچاؤ کیلئے بیمہ سکیمیں شامل ہوں تاکہ کسان کی محنت محفوظ ہو‘ ملکی معیشت مستحکم ہو اور زرعی شعبہ بحال ہو سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں