دہشت گردی کے خطرات
سکیورٹی صورتحال پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق جون کے مقابلے میں جولائی میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں پانچ فیصد اضافہ ہوا‘ تاہم فورسز کے جانی نقصان میں 32 فیصد کمی آئی جبکہ دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں 49 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنے جہاں 82 میں سے 53 واقعات ریکارڈ ہوئے‘ بلوچستان سے 28 حملے رپورٹ ہوئے ۔ یہ رپورٹ دہشت گردی کے پیٹرن اور آئندہ کے خطرات کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ قبائلی اضلاع‘ جو پہلے بھی دہشت گردی کا گڑھ رہ چکے‘ ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور صوبائی اور وفاقی حکومت میں اختلافات دہشت گردوں کا کام آسان بنا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خطرات کو سرحد پار کی صورتحال سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ قبائلی اضلاع سمیت ملک بھر میں امن ہزاروں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے‘ اسے اختلافات کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کے تمام ادارے یکجان ہو کر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کریں تو ہی پائیدارامن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے وفاق اور صوبے کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کیلئے مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے اور اس کے لیے دہشت گردوں کی سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔