موسمی آفات اور انتباہ
گلگت بلتستان کے علاقے بابوسر میں سیلاب میں لاپتا ہونے والے سیاحوں کی تلاش کا کام 14 روز بعد ختم کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز انکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ اس سال جون سے کلاؤڈ برسٹ‘ گلیشیرز جھیلوں کے پھٹنے (گلوف) اور شدید مون سون بارشوں کی وجہ سے شدید موسمی صورتحال کا سامنا رہا ہے۔ اسی شدت کے نتیجے میں اس سال ملک بھر میں سینکڑوں اموات ہوئی ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں گلگت بلتستان سرفہرست ہے جہاں گلیشیر جھیلیں پھٹنے کی وجہ سے اس سال کئی بار ہنگامی حالات پیدا ہوئے۔ یہ موسمی شدت عین اس وقت پیدا ہوئی جب شمالی علاقہ جات میں سیاحتی سیزن عروج پر تھا اور ملک بھر سے سیاح ان علاقوں میں پہنچے ہوئے تھے۔ ناگہانی موسمی شدت کے غیر معمولی واقعات اس سال غیر معمولی جانی ومالی نقصان کا سبب بنے اور ان واقعات نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ موسمی آفات سے بچاؤ کے بندو بست میں مزید تاخیر یا کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت سے شدید متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ ہمارا اس حدت میں اپنا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر کیا کیا جائے کہ دوسروں کی ماحولیاتی خطاؤں کا بھگتان ہمارے حصے میں آ رہا ہے۔ ہمارے گلیشیر جو ہمارے لیے تازہ پانی کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں عالمی حدت کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ عمل ہر سال تیز تر ہوتا جا رہا ہے‘ نتیجے میں گلیشیر جھیلیں بننے اور پھٹنے اور گلوف کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑا یہ منظر نامہ ایک مستقل خطرہ ہے‘ جسے تسلیم کرنا ہوگا تاکہ بچاؤ کا لائحہ عمل اور تدابیر اختیار کی جا سکیں۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز اپنی جگہ مگر اس معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ اور قدرتی آفات سے بچاؤ کی ناقص تیاری کی وجہ سے ہمیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ فی زمانہ موسمیاتی اور ارضیاتی سائنسز اتنی ترقی کر چکی ہیں کہ شدید ترین مظاہر کی پیشگوئی بھی خاصی درستی کے ساتھ اور بروقت کی جا سکتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسی سہولتیں نہیں ہیں یا ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہمارا محکمہ موسمیات شاید ہی کوئی ایسا تجزیہ پیش کرنے میں کامیاب رہا ہو جس سے آنے والے خطرے سے قبل از وقت آگاہی مل سکی ہو۔ کلاؤڈ برسٹ‘ گلوف یا شدید ژالہ باری ایسے واقعات نہیں کہ ان کا قبل از وقت اندازہ لگانا ممکن نہ ہو۔ ارلی وارننگ سسٹم موجود ہوں تو بابوسر میں تیز بارش اور اچانک آنیوالے سیلابوں میں جو قیمتی جانیں لقمہ اجل بنیں‘ ایسے واقعات سے بہتر طریقے سے بچاؤ ممکن ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات جب کسی شدید موسمی صورتحال کی پیشگی خبر مل جائے تو متعلقہ ادارے ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تیاری نہیں کر پاتے۔ 26 جون کو یہی ہوا تھا کہ این ڈی ایم اے نے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے علاقوں کیلئے گلیشیر جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کا انتباہ جاری کیا تھا‘ مگر 27 جون کو دریائے سوات میں اچانک طغیانی سے 17 سیاح بہہ گئے۔ ان تک جو سرکاری مدد پہنچی وہ بچاؤ کے سامان سے لیس نہیں تھی‘ نتیجتاً 14 سیاح ڈوب گئے اور صرف تین کو زندہ بچایا جا سکا وہ بھی مقامی رضاکاروں کی مدد سے۔ وزیراعظم شہباز شریف‘ جنہوں نے گزشتہ روز گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور حالیہ سیلابوں کے متاثرین کو مالی امداد دی اور انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے چار ارب روپے کے فنڈز کا اعلان کیا‘ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں موسمیاتی ارلی وراننگ سسٹم کی ضرورت ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پیشگی انتباہ کا نظام موسمی آفات سے بچاؤ میں بہت مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کو اس معاملے میں نتیجہ خیز اقدامات کرنے چاہئیں۔ موسمیاتی آفات کے بڑھتے ہوئے واقعات اور نقصانات سے بچاؤ کیلئے ہر ممکن تیاری کی ضرورت ہے۔ فروگزاشت کے نتائج مزید خطرناک ہوں گے۔