آبادی کا بوجھ
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آبادی میں بے قابو اضافے اور اس سے جڑے مسائل پر صوبوں کو مؤثر حکمتِ عملی ترتیب دینے کی ہدایات خوش آئند ہی نہیں بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ اُم المسائل بن چکا ہے کہ اسی سے غربت‘ بیروزگاری‘ صحت و تعلیم کی زبوں حالی‘ رہائشی بحران‘ خوراک و پانی کی کمی جیسے بیشمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس وقت ملک میں آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح ڈھائی فیصد سے زائد ہے‘ یعنی ہر سال ساٹھ‘ باسٹھ لاکھ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف قومی وسائل پر بے پناہ دباؤ کا باعث ہے بلکہ قومی منصوبہ بندی کو بھی غیر مؤثر بنارہا ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے سے ملک میں تعلیم و صحت کی سہولتیں محدود ہو رہیں اور بیروزگاری اور غربت کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ برسوں تک بڑھتی آبادی کو نظرانداز کیا جاتا رہا جس کا خمیازہ آج پورا نظام بھگت رہا ہے‘ لیکن اب مزید غفلت کی گنجائش نہیں۔ ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک جامع اور قابلِ عمل حکمت عملی مرتب کریں۔ اس میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز کو فعال بنانا‘ مؤثر آگاہی مہمات اور مذہبی و سماجی طبقات کو ساتھ لے کر اجتماعی رویوں میں تبدیلی لانا شامل ہونا چاہیے۔ یہ بھی لازم ہے کہ آبادی سے متعلق پالیسی سازی وقتی نہیں بلکہ طویل مدتی بنیادوں پر ہو۔ اگر اس حساس مسئلے کو اب بھی سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو آنے والے برسوں میں آبادی کا بوجھ ریاستی نظام کو مکمل مفلوج کر سکتا ہے۔