اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

حکومت‘ اپوزیشن مذاکرات کی ضرورت

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت موجودہ سیاسی ماحول میں ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مقدمات کے حوالے سے اپوزیشن کے پاس متعلقہ فورم موجود ہیں‘ اسمبلی کو چلانے‘ ماحول بہتر بنانے اور قانون سازی کیلئے اپوزیشن ہمارے ساتھ مل بیٹھے‘ اس سے عام آدمی اور سیاستدان‘ دونوں کا فائدہ ہوگا۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ملک کو جس قدر گمبھیر چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے سیاسی ماحول میں منافرت‘ انتشار‘ اشتعال اور لاتعلقی کا جو زہر سرایت کر چکا ہے‘ اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے اب قانون ساز اور پالیسی ساز اداروں میں بھی شائستہ مکالمے اور معقول دلائل کے ذریعے اختلافات کے تصفیے کی روایت دم توڑ رہی ہے اور شور وغل اور دھینگا مشتی کے مناظر زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت جن مسائل میں گھرا ہوا ہے‘ ان سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ یکسو ہو کر اپنی توانائیوں کو ان مسائل کے حل پر صرف کیا جائے اور جو مواقع اس وقت ملک کو دستیاب آئے ہیں‘ اتحاد و یگانگت کی مدد سے ان سے بھرپور استفادہ کرنے کی سعی کی جائے۔ دیکھا جائے تو اس وقت ہمیں تین بڑے محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے؛ سیاسی استحکام‘ معاشی استحکام اور سماجی استحکام۔ بہت سے دیگر ایشوز انہی بڑے مسائل کے پیدا کردہ ہیں۔ سردست ایک بڑا مسئلہ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ معاملہ بھی سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ اس وقت ملک کے مغربی علاقوں بالخصوص قبائلی اضلاع میں شدت پسندی دوبارہ جڑ پکڑ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ روز بھی وانا میں پولیس وین کے قریب ایک بم حملہ ہوا جبکہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے ٹریک کو اڑا کر ٹرین کو بڑے حادثے سے دوچار کرنے کی سازش کی گئی‘ جس سے خدا نے محفوظ رکھا۔ یہ تمام واقعات دہشت گردی کے حوالے سے یکسوئی اور متفقہ پالیسی اپنانے کی ضرورت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ملک و قوم کی خیرخواہی میں اپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ان مسائل کی طرف متوجہ ہو‘ جو ملک و ریاست کیلئے ابھرتا ہوا خطرہ ہیں‘ تو یہ مسائل چاہے فوری حل نہ ہوں مگر ایک قابلِ عمل راہ ضرور نکل آئے گی۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے اس وقت دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور لگ بھگ دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اس وقت نوجوان سیاسی ماحول سے بے حد مایوس اور پریشان ہیں مگر ان کی آنکھوں میں امید کے دیے بھی روشن ہیں۔ اگر ان نوجوانوں کو تعلیم وتربیت کے بہتر اور مناسب مواقع فراہم کیے جائیں‘ تو یہ ملکی ترقی اور خوشحالی کے سفر کو تیز تر کر سکتے ہیں۔ مگر یہ اسی صورت ہو گا جب سیاسی ہیجان اور اضطراب میں کمی آئے اور فیصلہ ساز قوتوں کی توجہ اپنے گروہی سیاسی مفاد کے حصول کے بجائے قومی مقاصد پر مرکوز ہو۔ اس لیے سیاسی قیادت کو اپنی انا کو پس پشت ڈال کر ملک وقوم کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ یہی ہمارے مسائل کا اصل حل ہے۔ سیاسی ہیجان کم ہو گا تو سماج مضبوط ہو گا اور معیشت بھی تیزی سے بحال ہونے لگے گی۔ اب یہ فیصلہ پارلیمانی وسیاسی جماعتوں کو کرنا ہے کہ انہوں نے ذاتی جھمیلوں میں مگن رہ کر ملک وقوم کا مستقبل دائو پر لگانا ہے یا باہم متحد ہو کر درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ اگر سیاسی قیادت اسی طرح ایک دوسرے سے متنفر رہے گی تو افتراق وانتشار کے ان شعلوں سے کوئی بھی محفوظ نہ رہ سکے گا۔ نہ صرف معیشت و معاشرت جمود کا شکار رہے گی بلکہ سیاسی جماعتوں کی اپنی بقا بھی خطرے سے دوچار رہے گی لہٰذا یہ وقت پرانی باتیں بھلا کے مل کر آگے بڑھنے اور ایک نئے دور کے آغاز کا متقاضی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں