اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پائیدار امن کے چیلنجز

سکیورٹی کے حوالے سے ملک عزیز کو اس وقت جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے افغانستان سے دہشتگردوں کی دراندازی ان میں سرفہرست ہے۔ افغان سرزمین سے ہونے والی یہ حرکت نہ صرف ہماری سرحدی سلامتی کو چیلنج کر رہی ہے بلکہ ملک کے اندر دہشت گردی کی نئی لہر کو ہوا دینے کا بھی بڑا سبب ہے۔ فتنے کی اس لہر کے خلاف مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی ادارے پورے عزم کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں اور دہشت گردوں کی جانب سے دراندازی کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے حالیہ کچھ عرصہ کے دوران متعدد کامیاب کارروائیاں ہوئی ہیں۔ اس قسم کی ایک کارروائی میں سات اور آٹھ اگست کی درمیانی رات مسلح افواج نے ژوب کے علاقے سمباڑا میں دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 33کے قریب دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ سرحدوں کی مؤثر حفاظت اور دہشت گردوں کا صفایا قومی سلامتی کیلئے بہت بڑا اقدام ہے۔ اگست 2021ء میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں توقع تھی کہ کابل حکومت اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس سامنے آئے ہیں۔ فتنہ الخوارج کے دہشت گرد افغان سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہوں سے نہ صرف منظم ہو رہے ہیں بلکہ افغان سکیورٹی فورسز اور غیر ملکی افواج کے چھوڑے ہوئے جدید اسلحے اور دیگر آلات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشتگردی کی سنگین کارروائیوں میں ملوث ہیں۔پاکستان نے متعدد بار افغان عبوری حکومت سے فتنہ الہندوستان کی سرگرمیاں ختم کرنے اور سرحد پار دہشت گردی روکنے کا مطالبہ کیا لیکن کابل کی جانب سے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بادی النظر میں افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے درمیان نظریاتی وعملی قربت اس مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے کئی حوالوں سے خطرناک ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوںمیں جو کامیابیاں حاصل کی گئیں وہ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک میںامن کی بحالی میں برسوں لگے تھے‘ لیکن اگر سرحدی دراندازی جاری رہی تو یہ ساری جدوجہد ضائع ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت براہِ راست امن وامان کی صورتحال سے جڑی ہیں۔ اگر ملک دوبارہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آتا ہے تو اس کے اثرات معیشت پر تباہ کن ہوں گے۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے جامع حکمتِ عملی اختیار کرے۔ اس صورتحال میں خیبر پختونخوا کی حکومت کی اہم ذمہ داریاں ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا دہشت گردی کے براہِ راست نشانے پر ہیں‘ مگر دونوں صوبائی حکومتوں کے رویے اور سکیورٹی چیلنجز کی جانب ان کے ردِعمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بلوچستان حکومت دہشت گردی کے خلاف قومی مؤقف کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت کا رویہ اس کے برعکس نظر آتا ہے‘ جس کے نتیجہ میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات متاثر ہو رہے ہیں۔ سنگین نوعیت کے خطرات کے باوجود مسلح کارروائیوں کے خلاف سیاسی بیانیے کا سہارا لے کر رکاوٹیں پیدا کرنا اس کی ایک مثال ہے‘ جس کے نتیجے میں صرف دہشت گردوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی سطح پر سیاسی اختلافِ رائے کو قومی مفادات کے آڑے نہ آنے دیا جائے۔ صوبے کی سکیورٹی کے معاملات کو سیاست سے بالاتر رکھا جائے اور وفاقی حکومت اور صوبہ اس معاملے میں ایک پیج پر ہوں تو افغان عبوری حکومت پر زور دینا زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ صوبائی حکومت اور وفاق ایک دوسرے کو الزام دینے کے بجائے حالات کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے تعاون اور ہم آہنگی پیدا کریں۔ یہی پائیدار امن کی ممکنہ صورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں