سفارتی محاذ کے مواقع
معرکہ حق کے تین ماہ بعد بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے پاکستانی جنگی طیاروں کو نشانہ بنانے کی جو بے پر کی اُڑائی ہے اس نے ہزیمت کے مارے بھارت کی مزید بھد اُڑائی ہے۔ اس غیر حقیقی اور بے موقع دعوے کی دوسری کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی سوائے اس کے کہ بھارتی عوام کو ایک متبادل بیانیہ بیچنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مودی سرکار اور ان کی افواج اپنے تباہ شدہ طیاروں کی تعداد کے سادہ سے سوال کا سیدھا جواب دے نہیں پائیں تو اس طرح بات کو گھمانے اور چبھتے سوالوں سے بچنے کی کوشش کی ہے ۔مگر فی زمانہ کھلی جنگیں کہاں راز رہتی ہیں اور پاک بھارت معرکے میں جو کچھ ہوا وہ بھی تفصیل کے ساتھ منظر عام پر آ چکا ہے۔ ابھی ہفتہ ہوا کہ خبررساں ادارے رائٹر ز نے ایک رپورٹ میں پوری تفصیل بیان کی تھی کہ پاکستان نے کس طرح بھارت کے جدید ترین جنگی طیاروں کے پرخچے اڑائے۔ان تفصیلات کے بعد بھارتی فضائیہ کے سربراہ کی بے وقت کی راگنی کوکون پوچھتا ہے۔ اس معرکے نے بھارت کو جنگی محاذ پر شکست سے دوچار کیا تو سفارتی سطح پر بھی بھارتی اکڑنت ڈھیلی پڑ گئی ۔ بھارت جو جنوبی ایشیا میں مغربی طاقتوں کا بازو سمجھا جاتاتھا نئی حقیقتوں میں کہیں نظر نہیں آ رہا۔ امریکہ کا 50فیصد ٹیرف بھارت کیلئے غیر معمولی جھٹکا ثابت ہوا ہے۔ بھارت جوخود کو مغرب کا ڈارلنگ سمجھنے کا عادی تھا اور مودی جیسے شہرت پسند رہنما نے بھی عوام کو یہی باور کروایا تھا ‘ اب نئی صورتحال کا تجزیہ کرنے میں خاصی دقت محسوس کررہا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ صورتحال کئی حوالوں سے اہم ہے ۔ سب سے پہلے یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت مغرب میں اپنے اثر و رسوخ اور اپنی آبادی کے ناتے ایک بڑی صارف مارکیٹ ہونے کو پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ اس کا فائدہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر اور اندرون بھارت مسلم آبادی اور دیگر چھوٹے طبقات کے خلاف مجرمانہ اقدامات کی پردہ پوشی اور انسانی حقوق کی المناک خلاف ورزیوں کو چھپانے اور خود کو عالمی دباؤ سے بچانے میں اٹھایا۔تاہم مغربی دنیا جو کبھی بھارت کی سب سے بڑی حامی سمجھی جاتی تھی اب محتاط رویہ اختیار کر رہی ہے اوریہ صورتحال پاکستان کیلئے ایک اہم موقع پیداکرتی ہے۔ سب سے پہلا اور اہم قدم مسئلہ کشمیر کو نئے جذبے اور شواہد کے ساتھ عالمی فورمز پر اجاگر کرنا اور دنیا کو یہ بتانا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی پاک بھارت تنازعات کی بنیاد ہے ۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں معاشی اور تجارتی تعاون کو ترجیح دینے اور مغرب کے ساتھ تجارتی اور معاشی روابط کو بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ خطے اور دنیا کے دیگر ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ اقتصادی تعلقات مستحکم کرنے سے نہ صرف پاکستان کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی سفارتی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ پاکستان کو امن اور ترقی کے پیغام کے ساتھ اپنی شناخت کو مستحکم کرنا ہوگا تاکہ بھارت کے جارحانہ تاثر کے مقابل پاکستان مثبت اور تعمیری امیج کے ساتھ سامنے آئے۔اس سلسلے میں سفارت کاری میں تسلسل اور پیشہ ورانہ مہارت ناگزیر ہے تاکہ یہ مؤقف محض وقتی نعرہ نہ لگے بلکہ ایک مستقل پالیسی کی صورت اختیار کرے۔مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ملک کے داخلی حالات منظم اور مستحکم ہوں۔ سیاسی اور معاشی استحکام اور قومی یکجہتی کے بغیر کوئی بھی سفارتی مہم دیرپا اثر نہیں دکھا سکتی۔ بھارت کی عسکری شکست اور سفارتی پسپائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری‘ مربوط اور سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ سفارتی میدان میں مواقع بار بار نہیں آتے۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی پاکستان کے لیے ایک موقع ہے ۔ دانشمندی اور حکمت عملی کے ساتھ اس موقع کو استعمال کیا جائے تومسئلہ کشمیر اور آبی تنازعات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔