کسانوں کا استحصال
ایک خبر کے مطابق شوگر مل مالکان نے مالی سال 2023-24ء میں گنے کے کاشتکاروں کو تین ارب روپے سے زائد کی ادائیگی نہیں کی۔ قانون کے مطابق یہ رقم 15 دن کے اندر ادا کی جانی چاہیے تھی مگر نہ صرف ادائیگی روکی گئی بلکہ کسانوں سے گنا بھی حکومت کے مقررہ نرخوں سے کم پر خریدا گیا۔ یہ صورتحال کسانوں کے معاشی استحصال کی ایک صورت ہے۔ جب کسان کو اپنی فصل کا معاوضہ وقت پر نہیں ملتا یا کم ملتا ہے تو اس کیلئے اگلی فصل کیلئے زمین کی تیاری اور بیج و کھاد کی خریداری بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ یوں وہ قرض لینے پر مجبور ہو تا ہے جس کے چنگل سے کاشتکار کا جیتے جی باہر نکلنا کسی کرشمے کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک طرف کاشتکاروں کے تین ارب روپے مارے گئے مگر دوسری طرف یہی شوگر ملیں پچھلے پانچ برسوں میں چینی کی قیمت میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کر چکی ہیں۔ یعنی شوگر ملیں کسانوں اور صارفین دونوں کا استحصال کر رہیں۔ رپورٹ کے مطابق متعلقہ محکمے کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کے باوجود کسانوں کی کوئی شنوائی نہیں ہو سکی۔ حکام کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہیں کہ سرکاری ادارے شوگر مل مالکان کے اثر و رسوخ کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں یا دانستہ طور پر چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ شوگر ملوں کے ہاتھوں کسانوں اور صارفین کے استحصال کا یہ سلسلہ ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ شوگر ملوں کو کسانوں کو بروقت اور پوری ادائیگی کا پابند بنایا جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف سخت قانونی اقدامات کیے جائیں۔