عزمِ عالیشان… ارضِ پاکستان
بحمدللہ آج پاکستان اپنے قیام کے78برس مکمل کرنے کے بعد 79ویں سال کا آغاز کر رہا ہے۔ اس قومی سفر کا آغاز جس بے سروسامانی کے حالات میں ہوا تھا اس وقت سرحد کے اُس پار اور دیارِ مغرب میں بسنے والے تجزیہ کار یہ قیافے لگا رہے تھے کہ اس نوزائیدہ مملکت کے لیے اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہو گا ‘مگر آج لگ بھگ آٹھ دہائیوں بعد پاکستان نہ صرف ناقابلِ تسخیر دفاعی صلاحیت کے ساتھ دنیا کی ایک بڑی عسکری طاقت ہے بلکہ تعمیر و ترقی کا سفر بھی جاری وساری ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد ہماری حرماں نصیبی یہ رہی کہ قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر بانیانِ پاکستان کو ملک کی حالت سدھارنے اور اسے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کا زیادہ وقت نہ مل سکا‘ جس سے طاقت کے حریص مسندِ اقتدار پر قابض ہو گئے اور محلاتی سازشوں کا ایک ایسا کھیل شروع ہوا جس کے اثرات آج تک باقی ہے۔ اس پر مستزاد باہمی کشمکش‘ بھارت کی ریشہ دوانیاں‘ سقوطِ مشرقی پاکستان‘ پاک بھارت تین جنگوں اور بدلتے علاقائی وعالمی حالات‘ جنہوں نے ہمیں مزید پیچھے دھکیل دیا۔ مگر یہ تمام تر حالات مل کر بھی پاکستان کی ترقی کے سفر میں حائل نہ ہو سکے اور قومی سفر آگے کو بڑھتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں اسے غیر معمولی امکانات میسر ہیں۔ زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جسے قدرت نے بلند وبالا پہاڑوں سے بھی نوازا ہے اور وسیع وعریض صحرا بھی عطا کیے ہیں۔ طویل ساحلی پٹی اور اس پٹی پر قدرتی گہرائی کے ایسے نایاب مقامات‘ جو جدید دور کی بندرگاہوں کی تعمیر کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ معدنی وسائل کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ علاوہ ازیں ملک کا زیادہ تر حصہ میدانی علاقوں پر مشتمل ہے جسے زمین کی زرخیزی اور معتدل موسم مزید چار چاند لگا دیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کو مغرب اور شمال مغرب میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ زمینی روابط اور تجارت کے بے پناہ امکانات میسر ہیں۔ یہ ملک جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک قدرتی پُل کا کام کرتا ہے۔ آبادی کا دو تہائی حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے سبب اسے وافر افرادی قوت بھی میسر ہے جبکہ پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کی ایک دنیا معترف ہے۔ یہ شاعرِ مشرق کے اس مصرع کی عملی تفسیر ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے اور اہم اداروں میں پاکستانی افراد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ مگر ہم نے بحیثیت قوم آزادی جیسی عظیم نعمت کی قدر نہیں کی اور سماج میں لوٹ کھسوٹ‘ رشوت خوری‘ جھوٹ‘ بے انصافی‘ فرائض سے اعراض اور عوامی استحصال کی عاداتِ بد کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجتاً معاشی وسماجی حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ ہمارا مسئلہ یہ رہا کہ ہمیں موزوں حالات میسر نہیں آ سکے یا وہ تسلسل‘ جو قومی ترقی کا لازمہ ہے‘ ہمارے ہاں مفقود رہا۔ مگر امکانات کی وسیع دنیا آج بھی ہمارے سامنے دامن پھیلائے ہوئے ہے۔ اگر عزم کی بات کریں تو پاکستانی قوم بظاہر ناممکن نظر آنے والے کاموں کو ممکن بناکر دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے بارہا حیران کر چکی ہے۔ رواں سال مئی میں پاک بھارت معرکۂ حق اس کی ایک حالیہ مثال ہے۔ محدود وسائل مگر بہتر منصوبہ بندی اور بہترین حربی و عسکری صلاحیتوں کے ساتھ پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی فضائیہ کو جس طرح دھول چٹائی‘ وہ کارنامہ مدتوں دنیا کی عسکری تاریخ میں پڑھایا جاتا رہے گا۔ معرکۂ حق میں پاکستان کو اپنے روایتی حریف پر جو زبردست فتح ملی اس سے نہ صرف ملک کی دفاعی صلاحیت کا بھرپور اظہار ہوا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور پاکستانیوں کا وقار بھی بلند ہوا۔ اسی لیے آج ہم خدا کے حضور عاجزی سے سر جھکاتے ہوئے فاتحانہ سرشاری میں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ آج ہمارے سامنے قومی سطح پر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے صد سالہ سفر کی تکمیل کے لیے کیا اہداف مقرر کر رکھے ہیں اور انہیں حاصل کیسے کرنا ہے۔ یہ سوال مقتدر اور بااختیار طبقات کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور عوام کو بھی۔ ملک کی ترقی قوم کی ترقی سے منسوب ہوتی ہے اور قوم افراد سے مل کر بنتی ہے۔ قومی ترقی کے سفر میں ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارا ہے۔ جب ہر ستارا اپنی جگہ پر چمکے گا تو پورا قومی افق جگمگانے لگے گا۔ آج وسائل و امکانات پاکستان کے لیے ترقی کی نئی راہیں کشادہ کر رہے ہیں۔ ہر فرد کواپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھانے کا عزم کرنا ہے۔ تنظیم‘ اتحاد اور یقینِ محکم کے قائد کے سبق کو دہرانا ہے۔ یومِ آزادی منانے کا تقاضا یہ ہے کہ ہر فرد اپنے آج کو گزشتہ کل سے بہتر بنانے اور خود میں مثبت تبدیلی لانے کا عزم کرے۔ قانون کی پاسداری‘ نظم وضبط کی پابندی‘ صفائی ستھرائی‘ دوسروں کی مدد کا جذبہ سمیت کتنی ہی قانونی‘ سماجی اور دینی ذمہ داریاں ہیں جنہیں آج ہر فرد نبھانے لگے تو یہ ارضِ پاک جنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ آج ہمیں عزمِ عالیشان کی ضرورت ہے‘ جو درحقیقت ترقیِ ارضِ پاکستان ہے۔ حکومتوں کا گلہ کرنے کے بجائے اب یہ فیصلہ بحیثیت قوم ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم نے کتنی جلد اور کس رفتار سے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں۔ ملک ترقی کی راہوں پر اس وقت گامزن ہو گا جب ہر پاکستانی ملک کی تعمیر وترقی میں اپنے حصہ ڈالے گا۔