نئے صوبوں کا مطالبہ
ملک میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اس بار یہ مطالبہ ملک کی سرکردہ کاروباری اور صنعتی شخصیات اور تنظیموں کی جانب سے کیا گیا ہے جو ملک میں انتظامی ڈھانچے کی بہتری اور گورننس کے مسائل کے حل کیلئے نئے صوبوں کی ضرورت کا احساس دلا رہے ہیں۔ ملکِ عزیز آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک کے مغربی حصے کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 78 برسوں میں ملکی آبادی سات گنا بڑھ گئی‘ مگر انتظامی صورتحال کو اس کے مطابق تبدیل نہیں کیا گیا‘ نتیجتاً ہمارے ہاں وسائل اور مسائل میں خوفناک درجے کا عدم توازن پیدا ہو چکا ہے۔ ہمارے صوبوں کاحجم اور آبادی کئی کئی ممالک کے مجموعی حجم اور آبادی سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں صوبے نہ اپنے وسائل کو صحیح طرح ترقی دے پاتے ہیں نہ مسائل کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے جو چار ممالک پاکستان سے اوپر ہیں ان کے ہاں انتظامی یونٹس کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو چین میں صوبائی سطح کے 34 انتظامی یونٹس موجود ہیں‘ بھارت میں 28 ریاستیں ہیں اور آٹھ وفاق کے زیر انتظام انتظامی یونٹس‘ امریکہ میں 50 ریاستیں اور انڈونیشیا میں 38 صوبے۔ یہ تو آبادی میں پاکستان سے بڑے ممالک کا حال ہے‘ اگر پاکستان سے کم آبادی والے پانچ‘ دس ممالک کو دیکھ لیا جائے تو وہاں بھی انتظامی یونٹس کی تعداد ملک عزیز سے کہیں زیادہ ہے۔ ثابت ہوا کہ ہم بڑی آبادی والے صوبوں کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم نہ کر کے دنیا کیلئے انتظام کاری اور بندوبستِ حکومت کی ایسی کیس سٹڈی فراہم کر رہے ہیں جو دوسروں کیلئے باعثِ عبرت ہے۔ صوبوں کے بہت بڑے رقبے اور بے تحاشا آبادی کے باوجود صوبوں کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ اس کا کوئی مدلل جواب نہیں ملتا۔ سیاستدان‘ انتظامی ماہرین‘ سرمایہ کار‘ ماہرینِ معیشت‘ صنعتکار غرض قومی زندگی کا ہر قابلِ ذکر حلقہ چھوٹے انتظامی یونٹس کے اصولی مطالبے کے حق میں ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں جو اس امر پہ بضد ہو کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے‘ ہمارے مسائل جو مرضی صورت اختیار کر لیں ہم نے نئے انتظامی یونٹس کی تخلیق کے تصور کو اہمیت نہیں دینی۔ قومی زندگی میں ایسا کوئی نہیں جو اس حقیقت کو ماننے کو تیار نہ ہو کہ قیام پاکستان کے وقت کے اور آج کے حالات میں بہت بڑا فرق ہے۔ آبادی میں بڑے اضافے کے ساتھ جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اور ان مسائل کا جو حل ممکن ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ صوبوں کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جائے۔ یہ تبدیلی 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والی مالی اور حکومتی خود مختاری کیلئے بھی ضروری ہے۔ اس ترمیم کے تحت مرکز سے صوبوں کے مالی حصے میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ موجودہ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق صوبوں کو 58 فیصد فنڈز ملتے ہیں مگر ان وسائل کا بہترین استعمال نظر نہیں آتا۔ دور دراز کے علاقوں کی پسماندگی پہلے سے کہیں زیادہ ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کی نظر کرم اکثر صوبائی دارالحکومتوں یا چند بڑے شہروں پر ٹھہرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبوں کو مالی خود مختاری ملنے کے باوجود عوامی بہتری کی صورت پیدا نہیں ہو سکی۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہمارے مسائل کا حل چھوٹے انتظامی یونٹس ہیں۔ یہ تبدیلی جتنی جلد ہو اتنا بہتر ہے۔ سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے قیام کا مطالبہ خوش آئند ہے۔ کاروباری حلقوں کا نئے صوبوں کے حق میں آواز بلند کرنا اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ معیشت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ چھوٹے انتظامی یونٹ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کیلئے زیادہ سازگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر صوبے چھوٹے ہوں تو کاروباری طبقے کو حکومت تک رسائی اور مسائل کے حل میں آسانی ہو گی جس کا براہ راست فائدہ معیشت کو ہو گا۔