جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی نظام
’’شہریوں کی 90 فیصد ضروریات لوکل گورنمنٹ کے ذریعے پوری ہوتی ہیں لیکن اسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا‘ گلی سے لے کر شہر تک‘ صفائی ستھرائی اور دیگر سہولتوں کی فراہمی لوکل گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے‘‘۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے چھوٹے انتظامی یونٹس‘ نئے صوبوں کی ضرورت اور بلدیاتی نظام کی افادیت کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ میرٹ پر آنے والے لیڈرز ہی قومیں بناتے ہیں‘ ہمیں لیڈر تلاش نہیں کرنا بلکہ ایسا سسٹم بنانا ہے جس سے نکل کر لیڈر سامنے آئے۔ دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی بنیاد اور اسکی نرسری سمجھا جاتا ہے۔ ہر جمہوری معاشرے میں عدم ارتکازِ اختیارات اور معاشرے کی نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی پر توجہ دی جاتی ہے مگر ہماری سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں جمہوری حکومتیں ہی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی اور ہر وہ حربہ اپناتی ہیں جس سے بلدیاتی نظام کو مفلوج کیا جا سکے۔ وجہ صاف ہے کہ ہمارے ہاں قوتِ فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھنے اور ارتکازِ اختیارات ہی کو اصل اقتدار سمجھا جاتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کے معاملے میں جمہوری سیاست کی دعویدار جماعتوں کے قول وفعل میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا منشور عوام کے جمہوری حقوق کی پاسداری کی ضمانت دیتا ہے‘ جس میں فعال بلدیاتی نظام کی بحالی کے بلند بانگ دعوے بھی کیے جاتے ہیں مگر حصولِ اقتدار کے بعد یہ جماعتیں عوام کے بنیادی جمہوری حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بلدیاتی اداروں کو پروان چڑھانے اور عوام کو فوائد پہنچانے کا کام صرف غیر جمہوری ادورا میں ہوا۔ ایو ب خان سے پرویز مشرف تک کے ادوار میں ہمیں ملک میں بلدیاتی حکومت کا ایک بہترین نظام نظر آتا ہے مگر جیسے ہی ملک میں جمہوری دور کا آغاز ہوا‘ بلدیاتی اداروں کی بساط لپیٹ دی گئی۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس نظام کو مفلوج رکھنے اور معطل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ اگر اعلیٰ عدلیہ نے بلدیاتی انتخابات کیلئے حکم جاری کیا تو بھی حیل و حجت سے کام لیا گیا اور نئی قانون سازی کی آڑ میں اس کو ہر ممکن حد تک معطل رکھا گیا۔ آج بھی ملک کا سب سے بڑا صوبہ کسی فعال بلدیاتی نظام سے محروم ہے اور عوام اپنے چھوٹے موٹے کاموں کیلئے صوبائی حکومت اور افسر شاہی کے محتاج ہیں۔ گلی یا سڑکوں کی تعمیر‘ پانی اور سیوریج کے مسائل‘ عائلی و خانگی معاملات‘ مصالحت اور پولیس‘ تھانہ سمیت عوام کو درپیش 90 فیصد سے زائد مسائل بلدیاتی اداروں کے ذمے ہوتے ہیں‘ مگر یہاں حکومتیں بلدیاتی اداروں کو مفلوج کر کے اپنی ذمہ داریوں میں خواہ مخواہ اضافہ کر لیتی ہیں جس سے ایک طرف مسائل میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسری طرف رہنما سازی کا عمل تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب جمہوریت کی نرسری ہی عضو معطل بن کر رہ جائے تو جمہوریت کیسے پنپ سکے گی؟ اس حوالے سے آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 140 بالکل واضح ہے۔ لہٰذا اختیارات اور اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی محض جمہوریت کا لازمہ نہیں بلکہ آئینِ پاکستان کا بھی تقاضا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک آئیڈیل جمہوری نظام میں وفاقی اور صوبائی ایوانوں کے ارکان قانون سازی اور قومی پالیسی سازی کے ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ شہری نظام کو رواں رکھنا مقامی منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ضمن میں عوامی سطح پر بھی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اختیارات کی تقسیم اور ایک فعال اور بااختیار بلدیاتی نظام قومی سطح کی جمہوریت کیلئے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس کا معاون ومددگار ہے۔ بلدیاتی نظام کے بغیر نہ تو مسائل عوام کی دہلیز پر حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ملکی جمہوری نظام مستحکم ہو سکتا ہے۔