سیلاب اور اربن فلڈنگ
گزشتہ روزاسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو ایک بار پھر اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑا‘ جہاں ایک گھنٹے کی بارش کے بعد ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی۔ بارش کے باعث کئی علاقے زیرِ آب آ گئے‘ سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ روالپنڈی کے نالہ لئی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک پہنچنے پر طغیانی کے خدشے کے پیشِ نظر شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقلی کا الرٹ جاری کر دیا گیا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تین ستمبر تک اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ جہلم‘ اٹک‘ منڈی بہاء الدین‘ گجرات‘ گوجرانوالہ اور حافظ آباد میں شدید موسلادھار بارشوں کا الرٹ جاری کرتے ہوئے سیلابی صورتحال کا خدشہ ظاہر کیا تھا‘ اس وقت متعدد اضلاع پہلے ہی سیلاب کی زد میں ہیں۔ مون سون کی بارشیں اگرچہ ہر سال کا معمول ہیں تاہم موسمیاتی شدت کے علاوہ متعلقہ محکموں کی غفلت اور سست روی کے سبب رواں برس مون سون پورے ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ہے جس کا خمیازہ سینکڑوں قیمتی جانوں اور اربوں روپے مالیت کی املاک کے زیاں کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔این ڈی ایم اے کے مطابق یکم جون سے اب تک بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں 863 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں دریائے چناب‘ ستلج اور راوی میں آنیوالے سیلابی ریلوں کے سبب دو ہزار سے زائد دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں اور اسے صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب قرار دیا جا رہا ہے جس سے 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد یہ سیلابی ریلا آج رات سندھ میں داخل ہو جائے گا۔ دریاؤں میں طغیانی کی بنیادی وجہ بھارت کی جانب سے چھوڑا گیا پانی ہے مگر اسلام آباد اور راولپنڈی میں اربن فلڈنگ کی وجوہات خالصتاً انتظامی نوعیت کی ہیں۔ محکمہ موسمیات اور دیگر متعلقہ ادارے کئی ماہ پہلے ہی متنبہ کر چکے تھے کہ رواں برس معمول سے 25 فیصد زائد بارشیں ہوں گی‘ اور وفاقی و صوبائی انتظامیہ کو اس بابت مطلع اور متحرک بھی کیا گیا تھا تاکہ سیلابی نالوں اور آبی گزر گاہوں کی بروقت صفائی یقینی بنائی جا سکے‘ اسکے باوجود جا بجا انتظامی کوتاہیاں دیکھنے میں آئیں۔ اگر حکومت وفاقی دارالحکومت‘ جو ملک کا جدید ترین شہر ہے اور جسے پلاننگ کیساتھ تعمیر کیا گیا‘ میں بھی بارشی پانی کی بروقت نکاسی کا کوئی ٹھوس بند و بست نہیں کر پاتی تو دیگر شہروں کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکام کی جانب سے بارشوں کو ایک قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا متاثرہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اس دور کی ایک ٹھوس حقیقت ہیں اور اب تباہ کن بارشوں اور سیلابی صورتحال کا خطرہ ہمیشہ ہمار ے سروں پر منڈلاتا رہے گا‘ اس سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں‘ لہٰذا حکومت کو بدلتے موسمیاتی پیٹرن کے مطابق ایک نئی ٹھوس حکومت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں شدید بارشوں سے سینکڑوں انسانی جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے ۔ اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کرنا بھی ناگزیر ہے۔