اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

شنگھائی سپرٹ

شنگھائی تعاون تنظیم کے 25 ویں سربراہی اجلاس میں رکن ممالک نے زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں‘ عالمی انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے۔ مشترکہ اعلامیے میں شنگھائی سپرٹ کے تحت باہمی اعتماد اور مشترکہ ترقی کے عزم کی توثیق کرتے ہوئے یوریشیا میں برابری اور ناقابلِ تقسیم سکیورٹی کا ڈھانچہ تشکیل دینے پر زور دیا گیا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دنیا کثیرقطبی‘ منصفانہ اور نمائندہ عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے اس عزم کو بھی دہرایا کہ ہر قوم کو آزادی سے اپنے سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی راستے کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے۔ یوریشیائی خطے کی یہ تنظیم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کا سب سے بڑا فورم بن چکی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے الفاظ میں ‘ ایک تنا ور درخت۔ اس میں شک نہیں کہ ایس سی او خطے کے ممالک کو آپس میں جوڑنے اور اختلافات دور کرنے کیلئے ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ 2001ء میں چھ بانی اراکین سے شروع ہونے والی یہ تنظیم اب دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم بن چکی ہے‘ جس کی مجموعی اقتصادی پیداوار تقریباً 30 ہزار ارب ڈالر ہے اور جو دنیا کی تقریباً نصف آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔سکیورٹی ‘ امن اور استحکام کے بنیادی مقاصد کیساتھ قائم کیا گیا یہ اتحاد مزید متحرک اور نتیجہ خیز واقع ہو سکتا ہے اور اس خطے کیلئے اور دنیا کیلئے تعاون کا اہم ترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس خطے میں وسائل اور مسائل یکجا ہیں۔ بڑی آبادی‘ بڑھتی ہوئی غربت اور نوجوان آبادی کیلئے روزگار کے مواقع کی کمی اس خطے کے اکثر ممالک کا بنیادی مسئلہ ہے۔ دوسری جانب سرحدی تنازعات اور دہشت گردی کے مسائل ہیں جو یکجہتی اور ہم آہنگی کے جذبات پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو اپنے اصل مسائل کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے‘جن میں بیروزگاری ‘ غربت ‘ آبادی کے معیارِ زندگی میں بہتری ‘ تعلیمی اور سائنسی شعبوں میں ترقی اور علمی سرمائے کیساتھ دنیا کی قیادت کا چیلنج قابلِ ذکر ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ باہمی آویزش کو ختم کرتے ہوئے اپنی توجہ اور توانائی ان اعلیٰ مقاصد پر مرکوز کی جائے۔ اس خطے کے ممالک کیلئے ماحولیاتی تبدیلیاں بھی ابھرتا ہوا خوفناک مسئلہ بن چکی ہیں‘ جس سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے۔ تیانجن ڈیکلریشن کے مطابق دنیا کثیر قطبی‘ منصفانہ اور نمائندہ عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے‘یقینا ایسا ہے مگر اس سفر کی رفتار کا تعین جن عوامل سے ممکن ہے یوریشیائی خطے کے ممالک کا عزم اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اگر یہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف مصروف رہے اور دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے حربوں سے ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں لگے رہے تو عالمی نظام میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت تحلیل ہوتی رہے گی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا پلیٹ فارم ہمارے لیے سمت کا تعین کرنے اور مشترکہ جدوجہد کیلئے فکری اور عملی رہنمائی کر سکتا ہے ؛چنانچہ پاکستان سمیت اس دس رکنی تنظیم کے سبھی اراکین کوایس سی او کے مقاصد کیساتھ جڑت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کا طرزِ عمل اس معاملے میں ہمیشہ سنجیدہ اور دوراندیش رہا ہے۔ پاکستانی حکومتوں نے ہمیشہ اس علاقائی تنظیم کے مقاصد کی توثیق کی۔ حالیہ اجلاس میں بھی وزیر اعظم شہباز شریف کا خطاب اس امر کا غماز ہے۔ پاکستان پڑوسیوں سے مستحکم تعلقات چاہتا ہے ‘ مگر اس میں دو رائے نہیں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی علاقائی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کی ساکھ مستحکم ‘ ارادے نیک اور نظریں مستقبل میں بہت دور تک ہیں۔ خطے کے ممالک ان مقاصد کے ساتھ کھڑے ہوں تو مشترکہ ترقی اور امن کا خوا ب ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں