مضبوط دفاع اور امن کی ترجیحات
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا یہ بیان کہ پاکستان امن پسند ملک ہے لیکن جنگ مسلط کرنے والوں کو اسی طرح جواب دیا جائے گا جیسا مئی میں دیا گیا‘ خطے کی مجموعی صورتحال‘ سکیورٹی چیلنجز اور پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے جو موجودہ جیو پالیٹکس میں پاکستان کے کردار کو نمایاں کرتا ہے۔ ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست اس وقت حیران کن تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ بھارتی جارحانہ عزائم اور جنگی جنون کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بھارتی سیاسی قیادت داخلی ناکامیوں‘ معاشی دباؤ‘ تنازعات اور سماجی تقسیم سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کو استعمال کرتی رہی ہے۔ اس سال مئی میں بھارتی جارحیت بھی اس کی ایک مثال ہے‘ مگر بھارت کی جانب سے مسلط کی گئی اس جنگ میں پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیتوں اور تیاریوں کے ذریعے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا ۔

افواج پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بھی کامیاب جنگ لڑی ہے اور سرحدی دفاع کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور علاقائی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ پاکستان ہمیشہ امن کا داعی رہا ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہر فورم پر مذاکرات اور اعتماد سازی کے پُرامن حل کو اہمیت دی۔ بھارت میں پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد وزیراعظم پاکستان سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی ذمہ داران کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ افغانستان کی جانب سے دہشت گردی اور عملی طور پر افغان سر زمین کے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کا مسکن بن جانے کے باوجود پاکستان گزشتہ چار برس سے افغان عبوری حکومت کو اس سلسلے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کیلئے تحریک دیتا آیا ہے۔ لیکن امن کی خواہش کو کمزوری سمجھ لینا نہ صرف احمقانہ ہے بلکہ خطے کے امن کیلئے بھی شدید خطرات کا سبب بن سکتا ہے۔ خطے کے حالات اس وقت جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں‘ پاکستان کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ معاشی استحکام اور پائیدار ترقی ملکی چیلنجز میں یقینا سرفہرست ہونی چاہیے کیونکہ اسی سے بہت سے دیگر چیلنجز جڑے ہوئے ہیں۔
معاشی ترقی کے امکانات داخلی اور علاقائی سطح پر پُرامن حالات کا تقاضا کرتے ہیں مگر پاکستان کے مشرق اور مغرب میں دو ممالک کا جارحانہ رویہ خطے میں امن کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن موجودہ جغرافیائی سیاست اور درپیش خطرات کے ماحول میں پاکستان اپنی دفاعی ضروریات اور تقاضوں سے صرفِ نظر کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ سیاسی اور عسکری قیادت اور عوام اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کی سالمیت‘ خودمختاری اور دفاع پاکستان کی ترجیح اول ہے اور یہ اصول قومی سلامتی پالیسی کی بنیاد ہے۔ ان حالات میں اہم سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کو کس طرح سفارتی قوت میں تبدیل کیا جائے۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے‘ اتحاد بدل رہے ہیں اور عالمی مفادات نئے زاویوں سے ترتیب پا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کو اپنے علاقائی اور عالمی تعلقات اور سفارتکاری کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے جنگی جنون اور افغان رجیم کی دہشت گردی کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے اور خطے میں ایک ذمہ دار‘ امن دوست اور مستحکم ریاست کے طور پر اپنی حیثیت مزید واضح کرنے کیلئے یہ ناگزیر ہے۔ ملکی سلامتی مضبوط دفاع‘ مستحکم معیشت‘ مربوط خارجہ پالیسی اور سیاسی استحکام سے جڑی ہوتی ہے۔ پاکستان کا دفاع الحمدللہ مضبوط اور ناقابلِ تسخیر ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوط دفاع کو معاشی استحکام کے ساتھ جوڑا جائے کیونکہ اصل کامیابی وہی ہے جو قوم کو ترقی‘ امن اور خوشحالی کی منزل تک لے جائے۔ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے‘ یہی امن کی ضمانت اور پاکستان کی مضبوطی کا حقیقی زینہ ہے۔