اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ماحولیاتی مسائل، تعاون اور حکمت عملی

ماحولیات کے موضوع پر ایک کانفرنس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کوئی ملک تنہا موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نمٹ سکتا‘ اس کیلئے علاقائی تعاون اور مشترکہ مالیاتی حکمت عملی ناگزیر ہے۔ ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلیاں علاقائی اور عالمی مسئلہ ہیں مگر اس مسئلے کی بین الاقوامی نوعیت کا شعور اور اس سے نمٹنے کیلئے درکار اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے عالمی ماحول کو درپیش خطرات سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں اور اس کا نقصان عموماً ان ممالک کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو اس کے محرک اور متحمل نہیں ہوتے۔ ملک عزیز میں پچھلے چند برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات جس شدت کے ساتھ سامنے آئے ہیں ظاہر ہے کہ یہ عالمی حدت میں اضافے کی ایک وجہ ہے‘ مگر اس کے پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح سال کے آخری مہینوں میں فضائی آلودگی کی شدت جو ملک کے وسطی علاقوں میں زندگی مشکل کر دیتی ہے‘ اس میں بھی مشرق کی سمت سے چلنے والی ہواؤں کے ساتھ آنے والی آلودگی کا بڑا کردار ہے۔

ان حالات میں یقینا اپنی سطح پر بھی اقدامات درکار ہیں‘ مگر ان کا خاطر خواہ اثر اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک علاقائی سطح پر اس مسئلے کا ادراک نہ ہو اور تعاون نہ کیا جائے۔ اگر سبھی ملک اس ذمہ داری کو سمجھیں اور مناسب اقدامات کریں تو ماحولیاتی مسائل میں قابلِ ذکر بہتری یقینی ہے‘ تاہم بہت سے خطوں میں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات کی نوعیت اس میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی مثال واضح ہے کہ لاہور اور پنجاب کے دیگر اضلاع بھارتی پنجاب میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے شدید متاثر ہیں اور اس کے لاہور اور قریبی اضلاع پر اثرات سائنسی لحاظ سے ثابت شدہ ہیں۔ بعض سٹڈیز کے مطابق بھارتی پنجاب اور ملحقہ علاقوں میں فصلوں کی باقیات جلانے اور دیگر اقسام کی آلودگی اور دھوئیں کا 10 سے 30 فیصد اثر پاکستان پر ہوتا ہے۔ لاہور اور ملحقہ اضلاع میں سموگ کے پیٹرنز بھارتی پنجاب میں پرالی جلانے کے شیڈول سے ملتے ہیں۔

پاکستان کئی مرتبہ یہ مسئلہ سفارتی سطح پر بھی اٹھا چکا مگر بھارت کی جانب سے پاکستان کی ان شکایات پر کوئی باضابطہ جواب یا اقدام نظر نہیں آتا؛ چنانچہ آلودگی کی نوعیت اور شدت برقرار ہے۔ اسی طرح عالمی حدت میں اضافہ ہے‘ جس کے اثرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے نہایت خطرناک ہو چکے ہیں اور ہر سال اس کیلئے غیر معمولی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بہت سی صورتوں میں ان اثرات کے نقصانات ایسے ہیں کہ جن کا مالی حساب ممکن ہی نہیں۔ گلیشیرز جو ہمارے لیے پانی کا سب سے بڑا اور پائیدار ذریعہ ہیں‘ عالمی حدت سے شدید متاثر ہیں اور پگھلنے کا معمول بگڑ چکا ہے‘ ان ماحولیاتی نقصانات کے مالی زیاں کا حساب کوئی کیسے لگا سکتا ہے؟ یا خشک سالی کے طویل وقفوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے نقصانات کو کیونکر ماپا جائے؟ موسمیاتی تبدیلیوں کی اجتماعی نوعیت کو تسلیم کرنا اور اس حوالے سے ذمہ داریاں متعین کرنے کا عالمی نظام تشکیل دیے بغیر موسمیاتی مسائل پر قابو پانا ایک خواب ہی رہے گا۔

اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت اور اہمیت ظاہر وباہر ہے اور اس معاملے میں پس وپیش کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے موسمیاتی روگ بڑھتے جائیں اور سیلاب‘ خشک سالی‘ سموگ سے کوئی سال خالی نہ جائے۔ یہ صورتحال ملکی معیشت کو ترقی دینے کی کوششوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو گی اور غربت میں اضافے کا بڑا محرک بنے گی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی مشترکہ ذمہ داری کو قبول کئے اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملی کے بغیر انسانی آبادیوں کو درپیش یہ جناتی چیلنج قابو میں آنے والا نہیں۔ عالمی سطح پر مشترکہ اقدامات اور اس کیلئے مالیاتی ذمہ داریوں کو قبول کرنا ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے عالمی مسئلے سے نمٹنے کی مؤثر صورت دکھائی دیتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں