اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی اتحاد اورفکری وسعت

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اسلام آباد میں قومی علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ واریت کا خاتمہ اولین ضرورت ہے‘ اس کیلئے علما کرام اپنا کردار ادا کریں۔ اس موقع پر چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ علما کرام قوم کو متحد رکھیں اور قوم کی نظر میں وسعت پیدا کریں۔ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما ومشائخ کا قومی کنونشن نفرت‘ تعصب اور انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے اور اس ضمن میں مذہبی طبقات کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرنے کیلئے ایک اہم اقدام ہے۔ دینِ اسلام کے پُرامن آفاقی پیغام کو عام کرنا اور نسلِ نو کو اسلاف کے طرزِ عمل سے روشناس کرانا ایسی کانفرنسوں کاخاصا رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کی سیاسی وعسکری قیادت قومی یکجہتی‘ اتفاق و اتحاد کے حوالے سے دینی قیادت اور معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کو اندرونی وبیرونی محاذوں پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تنائو کی کیفیت ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بچے کھچے دشمن دوبارہ مجتمع ہو رہے جبکہ افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی ایک نئے خطرے کے طور پر ابھر رہی ہے۔ معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام اس پر مستزاد ہیں۔ ان کثیر جہتی خطرات سے نہ تو کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی حکومت اپنے طور پر نمٹ سکتی ہے۔ ان خطرات سے متحد ہو کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پاکستان کو معاشی ترقی کی طرف لے جانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر دہشتگردی اور یہ کوششیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں‘ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے دہشتگردی کا خاتمہ ضروری ہے‘ پوری قوم کو قومی معاملات پر یکجا ہونا ہوگا۔ اس وقت بدقسمتی سے پاکستان کی مغربی سرحد کے معاملات فکر انگیز ہیں۔ مغربی سرحدی دہشتگردی اور افغانستان میں دہشتگردوں کو ملنے والی محفوظ پناہ گاہوں کے پیچھے شدت پسندی کا نظریہ کارفرما ہے۔

اس حوالے سے ریاستی دفاعی ادارے تو اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں مگر ملک کے مذہبی و سماجی طبقات کو بھی اپنے فرائض کا ادراک کرنا ہو گا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اس ضمن میں علم وقلم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس قوم نے علم اور قلم کو چھوڑا تو انتشار اور فساد فی الارض نے وہاں جگہ لے لی‘ عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں‘ محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے۔ 2018ء میں تمام مسالک اور مکاتب فکر کے اہلِ علم وفکر نے یکجا ہو کر پُرامن بقائے باہمی اور باہمی برداشت کے فروغ اور اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت‘ حریت‘ مساوات‘ برداشت‘ رواداری‘ باہمی احترام اور عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کا ایک لائحہ عمل تیار کیا تھا جس پر عملدرآمد سے آج بھی فکری و نظری انتشار کا خاتمہ ممکن ہے۔ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے یہ متفقہ دستاویز ہمیں درپیش تمام فکری مباحث کو ہمیشہ کیلئے سمیٹ سکتی ہے۔ روڈ میپ ہمارے سامنے ہے‘ ہمیں صرف اسے اپنانے اور عملی زندگی پہ منطبق کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ قومی اتحاد کیلئے داخلی استحکام شرطِ اولین ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں رکھے۔

معاشی وداخلی استحکام سیاسی استحکام سے مربوط ہوتا ہے‘ اگر ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو تو وہاں داخلی استحکام بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کیلئے بھی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ ایسی بیٹھکیں حزبِ اختلاف کے ساتھ بھی منعقد کی جانی چاہئیں۔ دوسری جانب اپوزیشن بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ سٹیک ہولڈرز آپس میں سر جوڑیں اور قومی مسائل کا حل تلاش کریں۔ اس سے جمہوری عمل پر عوام کا اعتماد مزید مستحکم ہو گا اور قومی یکجہتی بھی مضبوط ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں