المناک وقوعہ!
آسٹریلیا میں سڈنی کے ساحل پر دہشت گردی کا واقعہ اور انسانی جانوں کا ضیاع باعثِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے۔ ہر ایسا واقعہ جو سماج میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرے اور خونریزی کا سبب بنے‘ کی پُرزور مذمت کی جانی چاہیے‘ اس سے قطع نظر کہ وقوعہ کہاں ہوا اور ہدف کون تھا۔ مذہبی اور نسلی نفرت کی بنیاد پر تشدد کی ہر صورت کو رد کرنا پُرامن دنیا کی بقا کا تقاضا ہے۔ آسٹریلیا میں ہونیوالے اس ناخوشگوار واقعے پر دنیا بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا۔ حملہ آوروں کے بارے اب تک آسٹریلوی ذرائع ابلاغ میں خاصی تفصیلات آ چکی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حملہ آور 1998ء سے آسٹریلیا میں مقیم تھا‘ وہیں شادی کی‘ حملے میں اسکی اعانت کرنیوالا اُسکا بیٹا بھی وہیں پیدا ہوا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حملہ کرنیوالا مرکزی ملزم داعش کی جانب رجحان رکھتا تھا‘ جس کیلئے آسٹریلوی خفیہ ادارے اس کی نگرانی بھی کرتے رہے۔ حملہ آور کے نام پر اسلحے کے لائسنس بھی تھے۔

بظاہر حملہ آور آسٹریلوی خفیہ اداروں کے افسران سے زیادہ چالاک نکلا‘ اس نے اپنی شناخت اور ارادوں کو چھپانے میں کامیابی حاصل کی‘ یہاں تک کہ آسٹریلوی حکومت کو داعش کی جانب رجحان رکھنے والے اس شخص کے نام پر اسلحے کے جاری کردہ لائسنس منسوخ کرنے کا خیال بھی نہ آیا۔ اب جبکہ ایک اندوہناک واقعہ رونما ہو چکا اور 16 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو متعلقہ حکام کا ماضی کی ان کوتاہیوں کی طرف بھی دھیان جائے گا اور یہ احساس رہ رہ کر آئے گا کہ بروقت اور مناسب اقدامات کر لیے جاتے تو اس خوفناک واقعے سے بچا جا سکتا تھا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خطرہ بلاشبہ عالمی المیہ بن چکا ہے۔ پاکستان سے بہتر اس درد کو کون سمجھ سکتا ہے جو آئے روز ایسے واقعات کا ہدف بنتا ہے۔ حالیہ کچھ برسوں کے دوران ایسے بے رحمانہ واقعات جس تواتر کیساتھ ہوئے دنیا کے محفوظ ترین مقامات کیلئے بھی یہ صورتحال ڈرا دینے والی ہے۔
کس لمحے کوئی جنونی راہ چلتے خاندان پر ٹرک چڑھا دے‘ کہاں کوئی ظالم کسی مسجد میں مصروفِ عبادت لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دے‘ کہاں کرسمس کی مارکیٹ میں مقدس تہوار کی خریداری کرنے والے کسی نامعلوم سمت سے آنے والے ٹرک سے کچلے جائیں‘ کہاں بھرے بازار میں کوئی فائرنگ شروع کر دے۔ یہ المناک واقعات مغربی ریاستوں میں غیر معمولی طور پر بڑھ چکے ہیں؛ چنانچہ وہاں کی حکومتوں کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ ہر واقعے کو مذہبی نفرت کا شاخسانہ سمجھ لینے کی روایت بھی درست نہیں‘ اگرچہ ایسے اکثر واقعات مذہبی یا نسلی بنیاد پر پائی جانیوالی نفرت ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں‘ پھر بھی اہلِ مغرب کو پہلے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے صاف ذہن کیساتھ ایسے واقعات کی کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ بادی النظر میں فرد کی نفسیاتی پراگندگی تشدد اور انسانوں کے خلاف جرائم کی بڑی وجہ ہے۔ مغربی معاشروں نے فرد کی آزادی اور مادی آسودگی پر توجہ دی ہے مگر شاید وہ اطمینان نہیں دے سکے جو ایک انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ایسے بیمار ذہن ایک آدھ ہی ہوتے ہیں مگر انکی قبیح حرکات پورے سماج اور ملک کیلئے طعنہ بن جاتی ہیں۔
ماضی میں عمومی طور پر پُرامن سمجھے جانے والے معاشروں میں مسلح حملے اور شخصی جرائم کی روک تھام کیلئے پہلے سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امن وامان قائم رہے اور تشدد کی روک تھام یقینی بنائی جا سکے۔ سڈنی میں جہاں حملہ آوروں کے بھیانک فعل کی مذمت کی جا رہی ہے وہیں احمد ال احمد نامی اُس شہری کی بہادری اور بروقت قدم اٹھانے کی جرأت مندی نے سبھی کے دل موہ لیے ہیں۔ حملہ آور کی گولی سے اُسکے بازو زخمی ہوئے مگر اس نے جس طرح جھپٹ کر حملہ آور کو دبو چ لیا اس سے مزید کئی بے گناہوں کی جان بچ گئی۔ احمد ال احمد جیسے افراد کسی بھی ملک‘ معاشرے اور نسلی پس منظر سے ہوں انسانیت کے ہیرو شمار ہوتے اور انسانی ضمیر کا استعارہ بنتے ہیں۔