تازہ اسپیشل فیچر

’’ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال‘‘

لاہور: (محمد ارشد لئیق) ولیم شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ''پوری دنیا ایک سٹیج ہے جہاں پر مرد و عورت اپنا کردار ادا کرنے آتے ہیں اور پھر اس سٹیج پر سے چلے جاتے ہیں۔

ارسطو نے ڈرامے کو زندگی گزارنے کی نقل کہا ہے، یونانی زبان میں ڈرامہ کا مفہوم مظاہرہ کرنا ہے یا کر کے دکھانا ہے، یعنی قول کو عمل کے روپ میں ڈھال کر پیش کرنے کا نام ڈرامہ ہے، زمانہ قدیم سے لے کر جدید دور تک ڈرامے کی کئی اقسام ہیں، مثلاً رمزیہ ڈرامہ، قصہ کہانی، رہیس، سٹیج ڈرامہ، نوٹنکی، مطالعاتی ڈرامہ، ریڈیو ڈرامہ، ٹیلی ویژن ڈرامہ، ٹیبلو، پتلی تماشہ، سٹریٹ تھیٹر، سوانگ وغیرہ، چونکہ ہمارا موضوع ریڈیو ڈرامہ ہے اس لئے ہم اس حوالے سے بات کرتے ہیں۔

ریڈیو ڈرامہ دیگر اقسام کے ڈراموں سے تکنیک کے اعتبار سے بہت مختلف ہوتا ہے کیونکہ یہاں سارا کام صرف مکالموں اور صوتی اثرات پر انحصار کر کے پیش کیا جاتا ہے، ریڈیو ڈرامہ میں آغاز، عروج، انجام، تجسس اور دلچسپی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے، ریڈیو ڈرامہ چونکہ صرف سننے سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا اس کی ابتدا بہت دلچسپ اور توجہ طلب ہونا ضروری ہے تاکہ سننے والا اسے متواتر اور مسلسل سننے میں دلچسپی رکھے۔

ریڈیو ڈرامہ جو عام طور پر 45 منٹ کا ہوتا ہے اس میں ڈرامے کا عروج یا آگے بڑھنے یا مین باڈی بہت احتیاط سے لکھی اور پروڈیوس کی جاتی ہے۔

حال ہی میں اس حوالے سے ایک کتاب   ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال‘، پڑھنے کا اتفاق ہوا جو محمد جاوید پاشا کی کاوش ہے، محمد جاوید پاشا کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے، وہ برصغیر کے نامور شاعر اور ادیب ناظم پانی پتی کے فرزند ہیں، گزشتہ پچیس سالوں سے وہ اخبارات میں اردو اور انگریزی میں مضامین تحریر کر رہے ہیں، وہ ایک طویل عرصہ سے ریڈیو پاکستان پر ڈرامے اور فیچر پروگرام بھی لکھ رہے ہیں۔

یہ کتاب ریڈیو ڈرامے کی تاریخ، ترقی اور ترویج پر ایک تحقیقی، ادبی اور دلچسپ معلومات کا خزانہ ہے،   ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال‘‘کو تحریر کرنا ان کا ایک ادبی کارنامہ ہے، موضوع کے اعتبار سے یہ ایک منفرد اور اوّلین کتاب ہے، کتاب میں برصغیر میں ریڈیو کی آمد اور اس پر ڈرامے نشر کرنے کے حالات و واقعات نہایت دلچسپ انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔

کتاب کا زیادہ حصہ ریڈیو پاکستان پر ریڈیو ڈرامے کے آغاز، ارتقاء اور عروج پر مشتمل ہے جس میں ریڈیو پر لکھنے والوں اور صدا کاروں کا تفصیل سے ذکر ہے، انہوں نے ریڈیو پاکستان پر اپنے پچیس سالوں کے عرصہ میں 150 سے زیادہ ڈراموں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے، ڈرامے کے اسلوب اور لوازمات پر جامع روشنی ڈالی ہے، یہ ڈرامے قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہوئے۔

اس کتاب کی اہم بات ان حقائق و واقعات کو ضبط تحریر میں لانا ہے جو اب تک محض سینہ بسینہ چلے آ رہے تھے، ان کو Documeut کیا جانا بھی ضروری تھا، مثال کے طور پر    ریڈیو کی کینٹین‘،،   گونگا‘‘،    آنسو نکل پڑا‘‘،   آپا شمیم‘‘،    نظام دین‘‘،    تلقین شاہ‘‘،   یاد باغ‘،اور    جشن تمثیل‘،قابل ذکر اور قابل مطالعہ ہیں۔

ریڈیو ڈرامہ تحریر کرنے کے بارے میں انہوں نے تفصیل سے ایک استاد کی طرح، اپنے ڈراموں سے مثالیں دے کر سلجھایا ہے، یہ کتاب پاکستان کی پچھترویں سالگرہ پر پیش کی گئی ہے اور ریڈیو ڈرامے کی پچھتر سالوں کی دلچسپ تاریخ کا احاطہ کرتی ہے، اسے قلم فاؤنڈیشن لاہور نے شائع کیا ہے، اس سے قبل ان کی ایک کتاب   سات دن ڈھاکہ میں‘، کلاسک نے شائع کی تھی۔

  ریڈیو ڈرامے کے پچھتر سال‘‘، پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے بھی ایک اہم دستاویز ہے جو ان سالوں میں ریڈیو ڈرامے کی ابتدا اور ارتقا کے مراحل بیان کرتی ہے، اس تصنیف میں یوں تو برصغیر میں ریڈیو کی آمد کے بعد اس پر ڈرامے کے ابتدائی ایام کے معاملات اور مشکلات بھی بیان کی گئی ہیں، تاہم اس کا مرکزی دورانیہ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان اور بالخصوص لاہور ریڈیو پر ڈرامے تیار کرنے اور نشر کرنے سے متعلق ہے۔

کتاب کا تعارف ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان اور    نقش ثانی‘،سٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان لاہور نے تحریر کیا ہے جو اس موضوع پر لکھے جانے والی تصنیف کی اہمیت کا مظہر ہے، کتاب کا پیش لفظ بھی نہایت دلچسپ ہے اور معلوماتی ہے، کسی حد تک ان کی زندگی اور ادبی و صحافتی حالات کا جائزہ بھی پیش کرتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ قارئین کرام ہماری پیدائش پر ہمارے کانوں نے جو پہلی آواز سنی وہ اذان کی آواز تھی اور ہوش سنبھالنے پر جو پہلی آواز کانوں میں پڑی وہ ریڈیو ڈرامے کے مکالمے تھے۔

وہ دن اور آج کا دن، ریڈیو اور بالخصوص ریڈیو ڈرامہ ہماری زندگی بلکہ رگ و پے میں سما گیا، ہمارے گھر دو چیزیں ہمیشہ موجود رہیں، ایک ہر روز اخبار کا آنا دوسرے ریڈیو کا بجنا، رسمی سے ناشتے کے بعد اخبار کا مطالعہ اور رات کے واجبی سے کھانے کے بعد ریڈیو پر ڈرامہ سننا وقت کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، آج بھی سرہانے کوئی نہ کوئی کتاب اور ریڈیو موجود رہتا ہے۔

ریڈیو ڈرامہ سننے، اسے سمجھنے اور اس کے لئے تحریر کرنے کے بعد آج اس پر ایک کتاب آپ کے ہاتھوں میں آپ کی توجہ کی طالب ہے، یہ کتاب اس تمام سفر کی روداد ہے جسے دلچسپ اور معلوماتی بنانے کی سعی کی گئی ہے، اس دوران ہم نے لاتعداد ریڈیو ڈرامے سنے اور ایک سو پچاس سے زیادہ ریڈیو ڈرامے تحریر کئے جو ریڈیو پاکستان لاہور مرکز اور قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہوئے۔

یہ کھیل تین منٹ کے مزاحیہ خاکے، سات منٹ کے دستاویزی ڈرامہ، آدھے گھنٹے کے موضوعاتی ڈرامے، پنتالیس منٹ کے روایتی ڈرامے اور ایک گھنٹے کے طویل دورانیے کے ڈراموں پر مشتمل تھے، یہ کتاب بنیادی طور پر ریڈیو ڈرامہ کا احاطہ کرتی ہے۔

ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔