تازہ اسپیشل فیچر

دوستی کا عالمی دن

لاہور: (حافظ بلال بشیر) انسان اس دنیا میں اکیلا آیا ہے اور موت کے بعد بھی اکیلا سفر آخرت کیلئے روانہ ہو جائے گا لیکن دنیوی زندگی میں وہ اکیلا رہ ہی نہیں سکتا، یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے، پیدائش کے ساتھ ہی سب سے پہلے دو انسان اس کے سب سے زیادہ محب وشفیق رشتے ''ماں باپ‘‘ ہوتے ہیں جو ماں، باپ ہونے کے ساتھ پہلے استاداوردوست بھی ہوتے ہیں، پھر بہن بھائی اور دیگر عزیز و اقارب سے دوستی ہوتی ہے۔

عمر کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ یہ دائرہ کار وسیع ہوتا چلا جاتا ہے، لڑکپن اور جوانی تک خونی رشتوں کے علاوہ انسان کے کئی دوست بن چکے ہوتے ہیں، کئی مشاہدات و تجربات سے گزر کر انسان فیصلہ کرتا ہے کہ دوستی کا صحیح حقدار کون ہے، کس سے دوستی کرنی چاہیے؟ اور دوستی کا دائرہ کار کیا ہونا چاہیے؟ آئیے ان سوالات کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ہم ذہن انسان کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، اچھے دوست تلاش کرتا ہے، بہترین دوستوں کا مل جانا کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے، پھر انسان مشکلات سے اکیلے نہیں لڑتا بلکہ ہر مشکل میں اس کے دوست اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

یقیناً بہترین دوست وہی ہیں جو ہمیں اس دنیا کی تاریک اور بدصورت حقیقتوں سے بہادروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائیں، ہماری غلطی کو غلط اور اچھائی کو صحیح طریقے سے شناخت کرنے اور ہم پر ہمارے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے پرخلوص ہو کر نصیحت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں کیونکہ ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ   انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے‘‘(الترمذی)۔

بچپن سے لے کر بڑھاپے تک انسان حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ اپنے ٹارگٹ مقرر کرتا ہے اور تمام ادوار میں ٹارگٹ مکمل ہونے کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے، یقیناً تمام بھلائی کے کاموں کا مکمل ہونا کامیابی ہی ہے، انسان کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب وہ اپنی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے اور احساس ہوتا ہے کہ کون میرے لیے واقعی اہم ہے، کون کبھی نہیں تھا اور کون ہمیشہ رہے گا۔

یاد رہے جس دوست کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ہمیشہ رہے گا، سب سے پہلے اس کے اخلاقی رویے اور اقدار کا جائزہ لیں کہ آیا جیسے وہ آپ کو نظر آتا ہے اپنے گھر میں والدین، حقیقی بہن بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرتا ہے، اگر تو اس کا رویہ اپنے حقیقی والدین، بہن بھائیوں اور اہل خانہ کے ساتھ اعلیٰ اخلاق پہ مبنی ہے تو پھر اس کا رویہ آپ کے ساتھ بھی ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔

اگر وہ گھر میں ہر وقت لڑائی، جھگڑے اور طوفان بدتمیزی برپا کیے ہوئے ہے تو آپ یہ جان لیں کہ آپ کے ساتھ فی الوقت جو اس کا اعلیٰ اخلاق پہ مبنی رویہ ہے یہ اس شخص نے اپنے اصل پہ لبادہ اوڑھا ہوا ہے اور کسی بھی وقت اس کا اصل روپ سامنے آ سکتا ہے، ایسے شخص سے دوستی کرنے سے اجتناب کریں۔

اخلاقی رویہ جانچنے کے بعد آپ یا آپ کے دوست کا امتحان کسی بھی پہلی مشکل کی گھڑی میں ہوگا، مشکلات کے وقت آپ کے ساتھ پہلی صف میں کھڑے ہونے والا ہی آپ کا دوست ہے، مشکل سے نکلنے کیلئے صحیح اور بروقت رہنمائی کرنے والا ہی آپ کا دوست ہو سکتا ہے، وقتی فائدہ اٹھانے والے دوست ایسے موقع پر سب سے پہلے غائب ہو جائیں گے، وقت گزر جانے کے بعد، بادل چھٹ جانے کے بعد آپ کے پاس آ کر ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کریں گے، ایسے دوستوں کو مسکرا کر الوداع کہہ دیں۔

مخلص دوست حقیقی بھائی کی طرح ہر وقت ساتھ ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ آپ جب بھی کسی بُرائی کی طرف راغب ہونے لگتے ہیں تو وہ آپ کو اس دلدل میں گرنے سے پہلے ہی روک لیں گے، وقتی طور پر تو آپ کو شاید بُرا لگے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا یہ احسان آپ کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

احساس تشکر کے ساتھ اُن کیلئے ہمیشہ دلی دعائیں نکلیں گی، اخلاقی اقدار سے عاری دوست ایسے موقع پر آپ کو گہری دلدل میں دھکیل کر غائب ہو جائیں گے اور آپ کے پاس اپنی بقیہ زندگی میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا، ایسے دوست بنانے سے اجتناب کریں جو دنیا و آخرت میں آپ کیلئے ذلت اور شرمندگی کا باعث بنیں۔

قارئین! ہر رشتے کا ایک دائرہ کار ہوتا ہے اس دنیا میں ماں، باپ جیسی نعمت کا کوئی نعم البدل نہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ان کیلئے بھی اُن کے حقوق اور حد مقرر کی ہے، اسی طرح اہلیہ اور بچوں کا رشتہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہیں، حتیٰ کہ قرآن کریم میں ہمیں یہ دعا سکھلائی گئی کہ   ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا دے‘‘۔

اسی طرح اگر آپ کسی سے دوستی کرتے ہیں تو حدود و قیود کا خیال رکھیں، کسی کے ذاتی دائرہ کار میں داخل نہ ہوں اور نہ ہی کسی کو اپنے دائرہ کار میں داخل ہونے کی اجازت دیں، بے شک وہ آپ کا مخلص دوست ہی کیوں نہ ہو، دوستی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا، ایک دوسرے کی مدد اور امن کلچر کا فروغ ہے، جب بھی حدود کی پامالی ہو گی تو پھر امن کا فروغ نہیں ہو گا بلکہ وہ دوستی آہستہ آہستہ نفرت میں بدلنے لگے گی، یہی مثال ایک فرد سے، خاندانی نظام، گاؤں، دیہات سے لے کر مختلف ممالک حتیٰ کہ دنیا بھر میں پارلیمنٹ کے اعلیٰ ایوانوں تک پیش کی جا سکتی ہے۔

30 جولائی کو دوستی کا عالمی دن منانے کا مقصد بھی دوستی کے رشتوں کے ذریعے امن کے کلچر کو فروغ دینا ہے، 2011ء میں اقوام متحدہ نے یہ دن اِس عزم کے ساتھ منایا کہ لوگوں، ممالک اور مختلف ثقافتوں کے مابین دوستی سے امن کی کوششوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر اخلاص پیدا کریں، بہترین اخلاقی اقدار کے فروغ کیلئے اقدامات کریں، مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں، کسی کی حدود کی پامالی نہ کریں، چاہیں ایک فرد سے دوستی کی سطح ہو، یا کوئی بھی مجموعی دوستی جیسا کہ مختلف ممالک کی آپس میں دوستی کی سطح ہو۔

حافظ بلال بشیر نوجوان لکھاری ہیں، ان کے مضامین مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔