تازہ اسپیشل فیچر

19 اگست….عالمی یوم انسانیت

لاہور: (حافظ بلال بشیر) ہر دور میں کچھ ایسے رہنما اس کرہ ارض پر موجود ہوتے ہیں جو انتہا پسندی، عدم برداشت، غصہ، تعصب اور نفرت سے نمٹ کر انسانیت کیلئے امن کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ سماجی، اخلاقی اور متعصبانہ بیماریاں پورے معاشرے کو ایک عفریت کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔

اس وقت پوری دنیا میں انسانیت کو ایک ایسے معاشرے کی تلاش ہے جو مہذہب بھی ہو اور ذمہ دار بھی، خود بھی پُر امن رہے اور پوری دنیا میں امن کی فضا قائم کرے اور خطرناک پُر تشدد معاشرے کی نشان دہی کر کے اسے درست کرنے میں مدد کرے، پرتشدد اور انتہا پسندی پر مبنی واقعات سے ممالک کے داخلی اور خارجی دونوں سطح پر نہ صرف ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ ایسے ممالک کو منفی انداز میں اجاگر کر کے تنقیدی سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔

انسانیت کے خلاف بے امنی کے بارے میں ثقافتی اقدار، ایمان، مذہب، سماجی روایات اور بہت سے دیگر عناصر غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، دنیا میں اب بھی ایسے کئی قبیلے موجود ہیں جو مخالف گروہوں کو کچلنے کیلئے جنگیں کرتے ہیں، جبکہ ایسے قبیلے بھی ہیں جو ہرگز کوئی جارح ٹیمیں تشکیل نہیں دیتے، کچھ ایسے قبیلے بھی ہیں جو پُرتشدد رویوں کے حامل نہیں مگر ان کے اپنے اندر ایک دوسرے کو قتل کرنے یا زخمی کرنے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔

ایسے قبیلے اب بھی موجود ہیں جو بظاہر بے حد پُرامن اور غیرجارح ہیں مگر وہاں جادو ٹونے جیسے قبیح فعل کے الزام پر اپنے ہی قبیلے کے کسی رکن کو قتل کرنے میں بالکل عار محسوس نہیں کی جاتی۔

آج کا جدید اور ترقی یافتہ دور جو سیاسی، سماجی، معاشی، سائنسی اور علمی میدان میں حد ِکمال کو چھو رہا ہے، اس دور میں بھی دنیا اسی طرح امن و امان کے مسئلے سے دوچار ہے جس طرح آج سے صدیوں قبل کا سماج امن اور سلامتی کے مسئلے سے دوچار تھا، آج بھی انسانی خون بہت ارزاں ہے، انسانوں کی عزتیں تارتار ہیں، مال و جائیداد محفوظ نہیں، مذہبی اور فکری حوالے سے تحفظ نہیں، آج بھی رنگ و نسل، ذات پات، وطنیت کا بھوت شیشے میں بند نہیں ہوا، اونچ نیچ کا فرق ختم نہیں ہوا۔

دنیا میں نیشنلزم، فاشزم، سوشلزم جیسے نظریات آئے لیکن کسی نے انسان کے ان بنیادی مسائل کا حل پیش نہیں کیا، لیگ آف نیشنز اور اقوامِ متحدہ کے نام سے ادارے بنے، پھر بھی امن و امان کا مسئلہ جوں کا توں رہا، ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا راج آج بھی قائم ہے، اقوام متحدہ ادارہ وجود میں آنے کے بعد ادارے نے کئی اہم مسائل کو حل کرنے کیلئے عالمی طور پر منانے اور آگاہی پیدا کرنے کیلئے دن مقرر کئے۔

عالمی یوم انسانیت متفقہ قرارداد کے ذریعے 2008ء میں 19 اگست کا دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مختص کر کے باقاعدہ طور پر منانے کی منظوری دی، یومِ انسانیت پوری دنیا کیلئے تمام اختلافات سے بالاتر ہو کر امن کیلئے عہد کرنے اور امن کی ثقافت کی تعمیر میں تعاون کرنے کیلئے عالمی سطح پر مشترکہ کاوش تھی۔

اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں آگاہی، جنگوں کا حل نکالنے کیلئے اس دن کو بات چیت، مذاکرات سے لڑائی جھگڑوں کا حل نکالنے کیلئے مختلف مباحثے، مکالمے کرائے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انسانیت کیلئے ایسا ماحول کہاں ہے؟

صحراؤں سے لے کر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کے قائم کردہ ایوانوں تک مظالم ڈھانے کے نت نئے طریقے ایجاد کر کے بھی انسانیت پہ تشدد کیا جاتا ہے، ایک طرف آتش و آہن کی بارش مسلم ممالک پر ہی برسائی جا رہی ہے، دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت میں مسلمانوں پر ہجوم کی شکل میں ظلم ہوتا ہے جس میں باقاعدہ ریاست سر پرستی کرتی نظر آتی ہے، کچھ عرصہ قبل برما کے مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے ہی خون کی ہولی کھیلی گئی، کشت و خون کا یہ سارا کھیل اور ظلم و تعدی کا یہ ننگا ناچ مسلمان قوم کے ساتھ ہی کیوں خاص ہے؟

اقوام متحدہ کی چھتری کے نیچے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ ماضی میں کئی مسلم ممالک میں ظلم و ستم ہوتا رہا اور اب بھی غزہ کی پٹی اور مقبوضہ کشمیر میں بدترین نسل کشی کی جا رہی ہے، اکتوبر 2023 سے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت نے انسانیت کو شرما دیا ہے، فلسطین میں دنیا کے خوفناک ترین ہتھیاروں کا تجربہ نہتے شہریوں پر کیا گیا۔

انسانیت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کی نام نہاد سلامتی کونسل اپنے ہی بنائے گئے بین الاقوامی قوانینِ جنگ کے بخیے ادھڑتے دیکھ رہی ہے لیکن آج بھی اپنی قبیح فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چشم پوشی سے کام لے رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ انسانیت کا عالمی دن منانے والے، اس کا اعلان کرنے والے تمام بڑے کردار بشمول اقوام متحدہ اس جنگ و جدل، فساد، ظلم کو ختم کرانے میں نا کام دکھائی دے رہے ہیں۔

حافظ بلال بشیر نوجوان لکھاری ہیں، ان کے مضامین مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔