وزیرخارجہ اور نائب وزیراعظم سحاق ڈار نے کہا ہے کہ بلوچستان کے تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے ایک روڈمیپ تیار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بات کوئٹہ میں صوبائی امن و امان اور ترقی کی صورتحال پر غور کرنے کے لیے بلائے گئے ایک اجلاس کے دوران کہی جس میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے علاوہ قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق‘ وفاقی وزیر جام کمال اور رکن قومی اسمبلی اعجاز جاکھرانی کے علاوہ صوبائی وزرا اور سینئر افسران بھی شریک تھے۔اسحق ڈار نے روڈمیپ کی تفصیلات نہیں بتائیں البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ بلوچستان وزیراعظم شہباز شریف کے دل کے بہت قریب ہے۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بلوچستان کے عوام اس وقت بڑے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو اُس کے تمام حقوق ملنے چاہئیں۔ بلوچستان کے عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے اس قسم کے ہمدردانہ بیانات سنتے آ رہے ہیں‘ تاہم صوبے کے موجودہ حالات کے تناظر میں وفاقی حکومت کی طرف سے بلوچستان سے متعلقہ مسائل کو سنجیدگی سے اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا عزم ایک خوش آئند اقدام ہے۔
بلوچستان کی حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مذاکرات کے نتیجے میں مؤخر الذکر کی طرف سے گوادر اور بلوچستان میں دھرنے ختم کرنے کے اعلان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہر مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں تشدد‘ دہشت گردی اور طاقت کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا ادراک کرنے کے لیے گزشتہ چند دنوں میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بیشتر اضلاع میں امن و امان کی صورتحال کا سرسری جائزہ لینا ہی کافی ہو گا۔ خبروں کے مطابق افغانستان میں جب سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان کارروائیوں میں ملوث دہشت گرد تنظیمیں خصوصاً کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو جدید ہتھیاروں کے ساتھ نہ صرف پولیس اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ ہینڈ گرنیڈز سے ہوٹلوں‘ سکولوں اور رہائشی عمارتوں جیسے سافٹ ٹارگٹس کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ہینڈ گرینڈز کے استعمال میں گزشتہ دو ہفتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں شہید اور زخمی ہونے والے شہریوں‘ جن میں بچے بھی شامل ہیں‘ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اس مسئلے کا از سر نو جائزہ لیا جائے جس میں دہشت گردوں کی نہ صرف درست نشاندہی کی جائے بلکہ انہیں معاشرے میں فعال دیگر سیاسی قوتوں سے الگ تھلگ کیا جائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب حکومت جائز شکایات اور مطالبات پیش کرنے والے احتجاجی مظاہرین کو دہشت گردوں اور دشمنوں کی ''پراکسی‘‘ پر قیاس کرنے سے اجتناب کرے۔ دہشت گرد تو چاہیں گے کہ انہیں ہر سیاسی‘ معاشی اور مذہبی مطالبات کے حق میں تحریک چلانے والے بطور پراکسی مل جائیں اور اسی طرح وہ اپنے اثر و رسوخ اور دائرہ کار کو وسیع کر سکیں کیونکہ دہشت گرد حکومت کے نہیں ریاست کے دشمن ہیں جبکہ سیاسی تحریکیں اور پارٹیاں حکومت کی اُن پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں جن کی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے‘ بیرونی دنیا میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور قومی مفادات کو زک پہنچتی ہے۔ ہر احتجاجی تحریک کو دہشت گردی یا دہشت گردوں کی پراکسی قرار دینا کسی طور مناسب نہیں‘ بلکہ یہ عمل دہشت گردوں کی صفوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ دہشت گردوں اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والی سیاسی قوتوں کے درمیان فرق کو واضح کر کے اول الذکر کے مکروہ مقاصد کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔
بلوچستان اور اس سے باہر پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کا اس پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا ہے اور اسے اسی طرح تسلیم کر کے اس کا ایک مستقل اور پائیدار حل تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن ماضی کی لگ بھگ سبھی حکومتوں نے اسے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کی۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ چونکہ سیاسی ہے‘ اس لیے ماضی میں کیے گئے آپریشنز اور 'تحفظِ حقوقِ بلوچستان‘ کے نام پر متعارف کرائے گئے امدادی پیکیج بھی صورتحال میں بہتری لانے میں ناکام رہے۔ جبکہ حکمرانوں کے رویے اور مؤقف میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نتیجتاً ایک طرف دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا سے نکل کر بلوچستان میں مذموم کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر دیا اور دوسری طرف مقامی (معدنیاتی) وسائل کے مبینہ ''استحصال کو روکنے‘‘ کے نعرے بھی بلند ہو رہے ہیں۔ اگر حکمرانوں نے قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے جمہوری حق کو تسلیم کر کے چھوٹے صوبوں کے عوام کو مطمئن نہ کیا تودہشت گرد گروہ قوم پرستی کے چیمپئن بھی بن جائیں گے۔ ایسا کرنے سے اُن کا مقصد عوام کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنا نہیں بلکہ قوم پرستی کی آڑ میں ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ہو گا تاکہ وہ اپنے مذموم ایجنڈے پر عمل درآمد کر کے اس ملک میں جمہوریت اور آئینی بالادستی کے بجائے اپنے نظریے اور اپنے نظام کو مسلط کر سکیں۔
بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اس خطرے سے آگاہ ہیں اور وہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو اس قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی حیثیت میں تسلیم کر کے طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اس کے حل کی کوشش کی جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ کوششیں کسی حد تک نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔ حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مذاکرات کے بعد گوادر اور صوبے کے دیگر مقامات پر دھرنوں کا خاتمہ انہی کامیاب کوششوں کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے لیکن اسے حکومت کی جانب سے محضTechnical Retreat اور عارضی اقدام کے طور پر لینے سے روکنے کیلئے بعض سرکردہ بلوچ لیڈر وفاقی حکومت پر اسے ایک مستقل پالیسی اور اپروچ میں ڈھالنے پر زور دے رہے ہیں۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا اپنی پارٹی کے وفد کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات ان کوششوں کا حصہ ہے اور قوی امکان ہے کہ یہ کوششیں بڑی حد تک بار آور ثابت ہوں کیونکہ بلوچستان کے سیاستدانوں‘ خصوصاً ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک کی نیشنل پارٹی‘ (ن) لیگ کے ساتھ صوبے کی مخلوط حکومت کا حصہ تھی اور ایک معاہدے کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اس حکومت کی پانچ سالہ مدت کے پہلے نصف عرصہ میں (ڈھائی برس) وزیر اعلیٰ رہے۔ ان کے دور میں ناراض بلوچوں کو منانے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا گیا اور ان مذاکرات میں نمایاں پیشرفت بھی ہو چکی تھی مگر نئے وزیر اعلیٰ کے آنے پر یہ پیشرفت ترک کر دی گئی اور بلوچستان کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اب اسحاق ڈار کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جو ملک کے لیے ایک خوش آئند خبر ہے۔