میں نے طالب علمی کے زمانے میں شورش ملک مرحوم‘ جو میرے قبیلے سے تھے‘ کے کہنے پر پہلا کالم جنگ اخبار میں طلبہ و طالبات کے صفحے پر سٹوڈنٹس کے لیے 1974ء میں لکھا تھا۔ مگر کبھی کسی سے شرط نہیں لگائی۔ ایک فری لانسنگ فورم کی طرف سے ہوم لینڈ میں بیٹھ کر حلال کمائی کرنے والے پاکستان کے لاکھوں نوجوانوں کو اپنی کاروباری لسٹ سے آفیشلی خارج کر دیا گیا ہے۔ وجہ صرف ایک بتائی گئی کہ زیادہ وقت پاکستان میں انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس پر (ن) لیگ کی ایک نوجوان منسٹر نے پوری IT بدل دینے والا بیان داغا۔ فرماتی ہیں: پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل VPN کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ جس کا ایک مطلب یہ ہے فائر وال کے معاملے پر قوم سے مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ لوگ جوش میں شرط لگاتے ہیں‘ میں کالم نویسی کیریئر میں ہوش میں شرط لگانا چاہتا ہوں کہ پاکستان نے فائر وال کاسٹ سے 100 فیصد سے بھی زیادہ آج کی اور کل کی Opportunity-Lost-Cost کا نقصان کر لیا ہے‘ مسلسل نقصان۔ اس عظیم کامیابی کی مبارکباد کسے دی جائے؟ اگر کوئی آزاد صحافی یا اصلی Investigative رپورٹر کسی E-library میں جا کر بیٹھ جائے اور صرف ایک عدد Comparison Sheet تیار کرے تو نقصان اس سے کہیں زیادہ کا نہ نکلے تو سمجھیں میں شرط ہار گیا۔
اس سے بھی اگلی مبارک باد یہ کہ ہم نے اپنے ملک کے نوجوانوں کو ازخود اپنا وِلن بنا لیا ہے۔ آزادیٔ اظہار‘ فریڈم آف پریس‘ آزادیٔ تحریر وتقریر جیسے بنیادی آئینی اور انسانی حقوق کو وزیراعظم نے دہشت گردی کہہ کر ATA97 کے زمرے میں ڈال دیا۔ یہ بدنامِ زمانہ کالا قانون موصوف کے بڑے بھائی نے فرمائشی طور پر پاس کروایا تھا۔ جب وقت کا دھارا بدلا‘ جنرل پرویز مشرف کا کٹھمنڈو سے آنے والا طیارہ اغوا ہوا‘ اس کیس میں قانون بنانے والے کو اسی قانون کے تحت ہتھکڑی لگ گئی۔
اب چلئے اگلی مبارک باد کی طرف۔ قائداعظم کے آزاد پاکستان کے 77ویں سال کی تکمیل پر یومِ آزادی والے دن ایک طنزیہ ٹک ٹاکر اور یوٹیوبر عون علی کھوسہ کو یومِ آزادی کا سورج غروب ہونے کے بعد اُس کی رہائش گاہ کا دروازہ توڑ کر‘ دس لوگ اُٹھا کر لے گئے۔ کچھ دن بعد خبر آئے گی اُنہیں بجلی والے اُٹھا کر لے گئے تھے۔ پھر اُنہیں بجلی بل کے کیس میں ہر مہینے شامل ہونے والی دفعہ 420 کے تحت سزا سنا کر اُن کے گھر کا میٹر اُتار لیا جائے گا۔ یوٹیوبر پر یقینا اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی پھیلانے کا الزام بھی آوے ہی آوے۔
بِل بِل پاکستان‘ سب کھا گئے یہ حکمران
بڑھتے رہیں یہ ٹیکس اور بِل
مرتی رہے یہ ساری عوام
بِل بِل پاکستان‘ پیسے نہیں ہیں میری جان
ٹیکس بِل میں ملتا ہے تو عوام کو جھٹکا لگتا ہے‘ رگڑا لگتا ہے
جب تک اُدھار نہ مانگے یہ ملک کہاں چلتا ہے‘ کہاں چلتا ہے
دو ہفتے پہلے لاہور کے ایک ہوٹل میں ہمارے اسی صنف کے ویٹرن اور ورسٹائل فنکار خالد عباس ڈار سے ملاقات ہو گئی۔ خالد عباس ڈار نے عرصہ پہلے بالکل ایسی Comic Perody پر گانا بنایا‘ جسے سرکاری ٹی وی نے فخریہ پروڈکشن کہہ کر نشر کیا۔ گانا تھا ''ایہہ پُتر بٹاں دے نئی رجدے‘‘۔ اسی طرزِ طنز پر سرائیکی کے معروف شاعر نے شاہکار رباعی لکھی جو تقریباً ہر ٹی وی اور اپوزیشن جلسے میں پڑھی جا چکی ہے۔
پاکستان میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (جسے معیشت کی زبان میں FDI کہتے ہیں) لانے کے دعویداروں کے نام غرفۂ دبئی سے تازہ مبارک باد آئی ہے۔ دبئی کے تمام کاروبار کی ماں کو دبئی چیمبر کہتے ہیں۔ اُس کے تازہ آفیشل اعداد وشمار نے اس ہفتے فخریہ اعلان ان لفظوں میں کیا: پچھلے صرف چھ ماہ میں 3 ہزار 900 سے زیادہ پاکستانی کاروباری اداروں (Firms) نے دبئی چیمبر آف کامرس کی ممبر شپ لے لی ہے۔ دوسری جانب ہمارے حکمران مافیا کی اَن تھک کوشش سے یہ نمبرز جلد بڑھ کر دُگنے چوگنے ہو جائیں گے۔ اس خدشے کا اظہار دو متعلقہ اداروں نے بھی کیا ہے۔ دونوں نے پاکستانی انٹرنیٹ پر فائروال لگانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: حکومت کا صرف یہ ایک قدم IT انڈسٹری کے لیے Disaster ثابت ہوا۔ پاکستان سافٹ ویئر ہائوسز ایسوسی ایشن اور ایک بڑی IT کمپنی کے CEO مسٹر محمد عامر بولے کہ فائروال IT انڈسٹری اور ملکی معیشت کے لیے گلے کا پھندا ثابت ہو گی۔
ان دنوں ہر پاکستانی اور چھوٹے بڑے کاروباری شخص کے پاس ایک ہی سوال ہے‘ ملک کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ ساتھ یہ بھی سوال اُٹھتا ہے کہ اگر ہم سمجھ سکتے ہیں ملک تباہی کی کھائی میں گرا دیا گیا تو حکمران مافیا کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی؟ اس سوال کا جواب وہ معاشی دہشت گرد دے سکتے ہیں جنہیں پاکستانی معیشت کی تباہی کا ٹاسک ملا ہے۔
اسی سوال کا ایک دوسرا پہلو بھی خاص میڈیا کے خاص لوگ پروموٹ کر رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو خاص الخاص حکمرانوں کا نمائندہ بلکہ سپوکس پرسن کہنے میں شرمندہ نہیں ہوتے۔ اُن کے مطابق ملک میں شمالی کوریا ماڈل نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے سسٹم میں بہتری لانے کے لیے جو بھی آواز اُٹھاتا ہے اُس کے لیے مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں‘ چاہے وہ آواز سنجیدہ لہجے میں اُٹھائی جائے یا مزاحیہ انداز میں۔ دونوں صورتوں میں اسے بغاوت اور غداری سمجھا جاتا ہے۔
کئی دوستوں کے لیے شاید یہ حیران کن انکشاف ہو کہ میں وزارتِ وقانون سے استعفیٰ دینے سے پہلے IT منسٹری کا انچارج وزیر بھی تھا۔ اسی حوالے سے ایک موجودہ انتہائی ذمہ دار مگر پریشان شخص نے مجھے بتایا کہ خدا کی پناہ‘ انٹرنیٹ کی سپیڈ 80 فیصد سے زیادہ کم کر دی گئی ہے۔ لاکھوں نوجوان بے روزگار ہو رہے ہیں۔ شاید آنے والے طوفان کا کسی کو احساس نہیں۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں‘ وفاق کی درسگاہوں اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں طلبہ سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ انقلابات کی تاریخ میں ایک لفظ آتا ہے Triggring point۔ کیا ملک کے لاکھوں طلبہ اور ملینز کے حساب سے بے روزگار بنائے جانے والے نوجوان جبری بے روزگاری کے باوجود دب کر بیٹھ جائیں گے؟؟ تاریخ کا سبق اس سے متصادم ہے۔