قدیم ادوار میں بادشاہ سلامت اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ایک دو آزمودہ نسخے استعمال کیا کرتے تھے۔ پہلے سلطنت کا انتظام حاصل کیا‘ پہلے ہی ہلے میں اپنے مخالفین کو‘ جن میں اکثریت خاندان سے ہی ہوا کرتی تھی‘ کو تہِ تیغ کیا‘ اگر ہاتھ نرم رکھا تو قیدمیں ڈال دیا۔ نشانِ عبرت بنانے اور شہزادوں کو پیغام دینے کے لیے کچھ کی آنکھوں میں تیزاب ڈلوا کر اندھا کردیا۔ پھر بھی خطرہ محسوس ہوتا کہ درباری عوام کو بغاوت پر نہ اُکسائیں‘تو انہیں تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں قتل کرا دیا جاتا۔ ایسے مظالم کی داستانیں تو ہر زمانے‘ مذہب اور تہذیبوں کی تاریخ میں پھیلی ہوئی ہیں‘ مگر داراشکوہ کی پہلے آنکھیں نکالی گئیں‘ پھر 30 اگست 1659 ء کو اورنگزیب کے حکم پر قتل کردیا گیا۔ یہ اس خطے کی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ آج بھی ساڑھے تین سوسال کے بعد مؤرخین اور سماجی علوم کے ماہرین میں یہ بحث جاری ہے کہ اگر داراشکوہ مغلیہ سلطنت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔ اورنگزیب اور داراشکوہ تصورات اور خیالات کے اعتبار سے دو مختلف شخصیات تھیں۔ داراشکوہ کی ''سفینۃ الاولیا‘‘ اور ان کا دیوان پڑھیں تو مسلم شناخت اور دو مختلف تہذیبی رنگوں کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ درویشوں نے ہمیشہ اورنگزیب قسم کے لوگوں کی مخالفت کی ہے‘ اور یہ صرف انتہا پسندی کے حوالے سے نہیں‘ بلکہ تاریخ کی گواہی کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے بھی اپنے آپ کو زبردستی ان کی صف میں شامل کیا ہوا ہے‘ تو اسی لیے ہمارا تعلق اور ہمدردی بھی داراشکوہ اور اس طرح کے دیگر مظلوموں کے ساتھ ہے۔ بادشاہ کی فضلیت کے لیے شاعروں‘ لکھاریوں اور درباریوں کی خدمات حاصل کی جاتیں جو اُسے ظلِ سبحانی جیسے ناموں سے مخاطب کرتے اور عوام میں بادشاہوں کے بارے میں فلسفے گھڑتے کہ انہیں خدا کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے‘ اس لیے ان کی حکم عدولی یا ان کے خلاف کوئی بات کہنا خدا کو ناراض کرنے اور اپنے لیے جہنم خریدنے کے مترادف ہے۔ بادشاہوں کے حامیوں کا سلطنت کے طول وعرض میں جال ہوتا اور وہ رعایا کی کڑی نگرانی کرتے اور اگر کوئی گستاخ زبان کھولتا تو اُسے ایسا سبق سکھاتے کہ پھر کوئی ظلِ سبحانی کے خلاف حرفِ شکایت لانے کی جسارت نہ کرتا۔ سلطنتوں اور بادشاہتوں کی بنیاد عقیدت پہ نہیں‘ خوف پر تھی اور جب تک کوئی منچلا وہ خوف نہ توڑ ڈالتا‘ بادشاہ سلامت‘ سلامت ہی رہتے۔ ان کی جگہ جو تاج پوش ہوتے ان کے طور طریقے بھی ایسے ہی ہوتے۔ کامیاب بادشاہ وہی گردانے جاتے جن کی اپنی گردنیں تومحفوظ رہتیں مگر وہ مخالفین کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہتے۔
جدید دور کا آغاز بادشاہت کے خاتمے سے ہوا لیکن اس کی صبح کا آغاز آسان نہ تھا۔ مغربی معاشروں میں لاکھوں انسانوں کو قربانی دینا پڑی اور حق گوئی اور حقِ حکمرانی کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑی۔ ہماری ایسی کاوشوں کی بنیاد سامراجی دور میں شروع ہوئی۔ مزید کچھ کہنے سے پہلے ایک جملہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بارے میں ضروری خیال کرتا ہوں۔ جان رچرڈز ایشیا کی تاریخ کے صف ِاول کے سکالرز میں سے ایک تھے‘جن سے ہماری عقیدت مندی بھی تھی۔ اپنی کتاب ''دی مغل ایمپائر‘‘ میں ان کا ایک فقرہ موجودہ اور ماضی کے حالات کے تناظر میں ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کی بنیادی وجہ اہل اور مدبر شہزادوں کا قتل اور بادشاہی اصولِ وراثت پر اتفاق کا فقدان تھا۔ یہاں صرف اشارہ ہی کافی ہے کہ کیسے کیسے لوگ یہاں حکمران رہے ہیں‘ اب بھی ہیں اور شاید آئندہ بھی ہماری نسلیں ان کے سائے سے محفوظ نہ رہ سکیں۔
بات جدید دور میں دو بنیادی حقوق کی ہو رہی تھی کہ ان کے بغیر کسی ریاست میں ریت‘ سریے اور سیمنٹ سے تیار کردہ برجوں کو دکھاکرجدیدیت کا دعویٰ تو کیا جاسکتا ہے مگر اس کی روح کو آپ نہیں پا سکیں گے۔ یہ حقوق اظہارِ آزادی اورعوامی نمائندگی ہیں۔ استعماری طاقتیں تو بوجوہ ہمارے خطوں سے رخصت ہوئیں اور جدیدیت کی بے شمار نشانیاں چھوڑ گئیں مگر بادشاہت کے پرانے جراثیم خصوصاً موجودہ پاکستان کے علاقوں میں ختم نہ کرسکیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ان کا ایسا کوئی ا رادہ ہی نہیں تھا۔ جواہر لال نہرو نے بھارت میں جاگیرداری نظام ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ اس کے برعکس یہاں سیاست‘حکومت‘ نوکر شاہی اور معاشرے کے ہر طبقے پر ان کا قبضہ رہا جو پرانے نظام سے وابستہ تھے۔ اس حکمران طبقے کے ثقافتی اثرات اتنے گہرے ہیں کہ جدید تعلیم سے آراستہ متوسط طبقہ ہو یا صنعتکار‘ اپنے سیاسی اور سماجی رویوں میں اس کلچر کے زیر اثر ہیں۔ انہوں نے آئین بنائے‘ بنوائے اور ترامیم کیں کہ اظہار ِآزادی اور عوامی حقِ حکمرانی قائم ہو‘ مگر جو ہوتا آیا ہے اور ہورہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے تو ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک کے حکمران طبقات کو وہی پرانے‘ بادشاہت کے زمانے پر کاربند ہوتے دیکھا ہے۔ ایوبی دور میں آزاد اخبارات کو حکومت کی تحویل میں لے کر صرف سرکار اور اس کے دربایوں کو لکھنے اور بولنے کی اجازت دی گئی۔ نئی نسلوں کو شاید یاد نہ ہو کہ پاکستان ٹائمز‘ جواَب آپ کہیں نہیں دیکھتے‘ میاں افتخار الدین نے چار فروری 1947ء کو شروع کیا تھا مگر جب ایوب خان نے ملک پر قبضہ کرنے کے ساتھ آزاد اور ترقی پسند اخبارات پر بھی قبضہ کر لیا اُس وقت فیض احمد فیض اس کے ایڈیٹر تھے۔ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ‘ جس کے تحت پاکستان ٹائمز تھا‘اُس کمپنی کے دیگر اخباروں میں امروز اور لیل و نہار کو بھی حکومتی اہلکاروں کے سپرد کردیا گیا۔ان اخبارات کو چلانے کے لیے 'نیشنل پریس ٹرسٹ‘ کے نام سے 1964ء میں ایک ادارہ بنایا گیا۔ جب ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو دو جلوسوں میں 1971ء میں یہ درویش بھی لاہور میں شامل ہوا۔ اس لحاظ سے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا عوامی دور‘ جس سے ہمیں بہت سی امیدیں وابستہ تھیں‘ کوئی زیادہ مختلف نہ تھا۔ پریس ٹرسٹ پھر بھی نہ ٹوٹا‘ صرف ایڈیٹر تبدیل ہوگئے۔ پھر حزبِ مخالف کے اخباروں کے پیچھے ایسا ڈنڈا چلایا کہ سب پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
ہمارے سب حکمران بلاتفریق حلیہ اور پس منظر اور پیش منظر عوام کے حقِ حکمرانی اور ہمارے جیسے گئے گزرے لوگوں کے قلموں کی تحریروں اور مخالفوں کی زبانوں سے ماضی کے بادشاہوں کی طرح خوفزدہ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آج کے دور کے تمام ذرائع ابلاغ یا تو درباریوں کے تصرف میں ہوں یا کوئی آزاد روی کی گستاخی کرے تو اس کا سافٹ ویئر تبدیل کرنے کے پرانے فارمولوں پر عمل کیا جائے۔ حقِ حکمرانی کی کیا بات کریں‘ آپ صرف ووٹ دیں‘ وہ گن کر کسی فارم پر کچھ لکھ کر اعلان فرما دیں گے اور عوامی حکومت چشم زدن میں وجود میں آجائے گی۔ ہم اس جدید دور میں ایسی سلطنتوں کے بھرم قائم رہنے کی دعا ہی کرسکتے ہیں کہ گستاخ بہت پیدا ہو گئے ہیں اوران کے ہاتھوں میں کئی ''شیطانی‘‘ آلات ہیں جو مغربی ریاستوں نے ہماری دشمنی میں ایجاد کیے ہیں۔ ایک اور بات بھی ہے کہ اگر ''شیطانی‘‘ آلات نہ ہوں تو آپ آئی ٹی کی ایکسپورٹ نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ بڑھا سکتے ہیں۔ سنا ہے کہ ہمارے ایک ہمسایہ ملک کی اس شعبے میں برآمدات سعودی عرب کی تیل کی ایکسپورٹ سے زیادہ ہیں۔ سنا ہے کہ خوف کی حالت میں ہوش نہیں رہتا۔ چونکہ ہم آزاد ہیں‘ خوف نہیں تو گزارش کرتے ہیں کہ پرانے نسخے کام نہیں دیں گے۔