بجلی کی قیمت اور سست انٹرنیٹ کے معاشی اثرات

بجلی کے بڑھتے بل ہر خاص و عام کے لیے مسئلہ ہیں۔ اس وقت ایک اوسط گھرانے کا بجلی کا بل گھر کے اخراجات سے بھی زیادہ ہو چکا ہے؛ چنانچہ اس وقت سب سے بڑا سیاسی مدعا بھی بجلی کی قیمتیں ہیں۔عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو عوام کو ریلیف دیاجائے۔ شاید اسی لیے پنجاب حکومت نے پانچ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو چودہ روپے فی یونٹ ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ریلیف اگست اور ستمبر کے بلوں میں دیا جائے گا۔ پنجاب سرکار نے مختلف شعبوں سے 45 ارب روپے کی کٹوتیاں کر کے اس مقصد کے لیے پیسہ نکالا ہے۔ صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ کچھ لوگ اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو دے رہے ہیں لیکن جماعت اسلامی کا مطالبہ آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز کم کرنے کے حوالے سے تھا اور وہ مطالبہ وفاقی حکومت سے تھا۔ اگر آنے والے دنوں میں وفاقی حکومت کپیسٹی چارجز کم کر کے بجلی کی قیمتیں کم کرتی ہے تو اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو دیا جا سکتا ہے لیکن پنجاب حکومت کی جانب سے دی جانے والی رعایت کا کریڈٹ صرف صوبائی حکومت کو بنتا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے ستمبر میں بجلی کے بلوں میں چار ارب پچاس کروڑ روپے ریلیف ملنے کا امکان ہے اور اس کی وجہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہے۔ تقریباً31 پیسے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کمی کی جاسکتی ہے‘ لہٰذا اس کا کریڈٹ بھی کسی جماعت کو نہیں دیاجا سکتا۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے اعتراض کیا جا رہا ہے کہ بجلی پر جو ریلیف دیا جا رہا ہے‘ پورے ملک کو دیا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں پوائنٹ سکورنگ کے لیے بیان تو دے دیتی ہیں لیکن ذمہ داری نبھانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتیں۔ اگر وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی بلوں پر ریلیف دینے کی بات کی جائے تو حکومت نے 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کے ریٹس میں اضافہ تین ماہ کے لیے ملتوی کیا تھا جو پورے ملک کے لیے یکساں تھا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں ریلیف پنجاب کے بجٹ سے دیاگیا ہے‘ نہ کہ وفاق کے بجٹ سے۔ سندھ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتیں بھی اپنے ترقیاتی اور دیگر بجٹ پر کٹ لگا کر عوام کو یہ ریلیف دے سکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر پنجاب کی طرز پر دیگر صوبوں میں بھی دو ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جائے تو سندھ کو 10 ارب‘ خیبرپختونخوا کو 8ارب اور بلوچستان کو صرف ایک ارب روپے کا بجٹ درکار ہے۔ ترقیاتی اور دیگر حکومتی اخراجات کم کر کے بجلی کے بل کم کرنے کے لیے بہ آسانی یہ پیسہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے دیے گئے ریلیف پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ یہ صرف دو ماہ کا ریلیف ہے‘ اس کے بعد بجلی پھر مہنگی ہو جائے گی حالانکہ ہمارے ملک میں بجلی کا زیادہ استعمال مئی سے ستمبر تک ہوتا ہے۔ اکتوبر میں تو موسم ویسے ہی بدل جاتا ہے تو بجلی کی کھپت میں بھی کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بہتر یہی تھا کہ ریلیف گرمی کے پانچ ماہ کے لیے دیاجاتا۔ اس سے عوام بھی خوش ہوتے اور عوامی مسائل حل کرنے کے حکومتی دعوے کوبھی تقویت ملتی۔اگر ان پانچ ماہ کے لیے صوبائی حکومتیں سپیشل پیکیج متعارف کرا دیں تو عوام کا مالی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب عوام کو ریلیف دینے کی کوئی اچھی خبر آتی ہے تو مفاد پرست اس ریلیف کو گہنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے ریلیف کے اعلان کے بعد یہ خبر بھی آگئی کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے صارفین پر مزید 47 ارب روپے کا بوجھ ڈالنے کے لیے نیپرا کو درخواست دے دی ہے۔ کیپسٹی چارجز کی مد میں 22 ارب 86 کروڑ روپے‘ سسٹم کے استعمال کے چارجز کی مد میں 7 ارب 51 کروڑ روپے اور نقصانات کی مد میں10 ارب 80 کروڑ روپے مانگے گئے ہیں۔نیپرا اس پر سماعت اگست کے آخری ہفتے میں کرے گا۔پنجاب حکومت نے جتنا ریلیف دیا ہے اس سے زیادہ ڈیسکوز نے بل بڑھانے کی درخواست کر دی ہے۔ اگر نیپرا نے اس کی منظوری دے دی تو پنجاب حکومت کا ریلیف عوام کے اخراجات میں کمی نہیں لا سکے گا۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ تک تو شاید فائدہ حاصل کیا جا سکے لیکن عملی طور پر نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
ان دنوں سست انٹرنیٹ بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ موجودہ دور میں انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کا تصور مشکل ہو چکا ہے۔ انٹرنیٹ کو جدید معاشی نظام میں آکسیجن کی سی حیثیت حاصل ہے۔ آج کل بزنس اور کاروبار کا تصور اس کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی فری لانسنگ انڈسٹری ہے۔ 20 لاکھ سے زیادہ افراد اس شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اور تقریباً 35 کروڑ ڈالرز سے زیادہ ملک میں فری لانسنگ کے ذریعے کمائے جا رہے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ میں مسلسل خلل کی وجہ سے آئی ٹی انڈسٹری ہر روز بزنس کھو رہی ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ یہ مسئلہ ہے کیونکر اور کب تک حل ہو گا‘ تا کہ کلائنٹس کو صحیح پوزیشن سے آگاہ کر کے ان سے مناسبت ڈیل کیا جا سکے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس طرح کے مسائل مستقبل میں بھی درپیش رہیں گے۔ انٹرنیٹ سروسز میں خلل آنے سے تیس کروڑ ڈالرز سے زائد کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ صرف فری لانسرز نہیں آئی ٹی سے متعلقہ دیگر شعبے بھی اس سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ اڑھائی بلین ڈالرز سے بڑھ کر تین بلین 20 کروڑڈالرز تک پہنچ گئی تھیں‘لیکن بار بار انٹرنیٹ متاثر ہونے سے ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن نظر نہیں آتا اور آئی ٹی ایکسپورٹ کو 25 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف خیال و خواب ہوچکا ہے۔ مگراصل نقصان پاکستان کے عالمی امیج کا پہنچ رہا ہے‘ جس کوروپے پیسے میں نہیں ناپا تولا جاسکتا۔ آئی ٹی انڈسٹری سے جڑے لوگ کئی سالوں سے ملک کا امیج بہتر کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن موجودہ حالات میں یہ کوششیں رائیگاں ہوتی جارہی ہیں۔ فری لانسر ایک لیپ ٹاپ اور ایک بیگ لے کر کسی بھی ملک جا کر کام کر سکتا ہے۔ اب تو ترقی یافتہ ممالک فری لانسرز کو آسان شرائط پر شہریت بھی دے رہے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف فری لانسرز بلکہ آئی ٹی کمپنیاں بھی اپنے دفاتر پاکستان سے دبئی اور دیگر ملکوں میں منتقل کر رہی ہیں۔ سالِ رواں‘ جنوری تا جون دبئی میں تین ہزار 986 پاکستانی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں دوسرے نمبر والا ملک ہے۔ یہ تعداد 2023ء کی اسی مدت کے دوران تین ہزار 395 تھی۔ گزشتہ سال دبئی چیمبر آف کامرس نے 8036 نئے پاکستانی کاروبار رجسٹر کیے تھے۔اگر پاکستانی سرکار نے انٹرنیٹ کے مسئلے کا حل نہ نکالا تو آنے والے دنوں میں آئی ٹی ایکسپورٹ میں اضافے کے بجائے کمی کی امید کرنی چاہیے۔ انٹرنیٹ کی رفتار 30 سے 40 فیصد کم ہونے کی وجہ فائر وال کی تنصیب بتائی جاتی ہے‘ جس نے انٹرنیٹ سے جڑے ہر کام کو برُی طرح متاثر کیا ہے۔اگر سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے تو اس سے متعلق وقت سے پہلے آگاہ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ متبادل ذرائع اختیار کیے جا سکتے۔ حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا تو وزیر آئی ٹی مستعفی ہوچکا ہوتا۔ لیکن پاکستان میں ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے عوام کو قصوروار ٹھہرانے کا رواج ہے۔ گزشتہ روز وزیر خزانہ قرضوں کے بجائے غیر ملکی سرمایہ کاری کو منزل بنانے کی ہدایت کر رہے تھے۔ موجودہ حالات میں یہ مقصد حاصل کرنا مشکل ہے۔ صرف دعووں‘ نعروں اور تقریروں سے سرمایہ کاروں کو راغب نہیں کیا جا سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں