تازہ اسپیشل فیچر

سیاسی مذاکرات بے یقینی کا شکار

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، اس مذاکراتی عمل کے دوران قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم ہو چکا ہے۔

کبھی بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ اور کبھی خیبر پختونخوا منتقلی کی آفرز کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں، پاکستان تحریک انصاف یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اسے ڈیل کی آفر دی جا رہی ہے مگر وہ اسے تسلیم نہیں کر رہے، دوسری جانب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو نہ تو کوئی ڈیل آفر کی گئی نہ ہی بانی پی ٹی آئی کی کہیں اور منتقلی کیلئے کوئی گرین سگنل دیا گیا ہے۔

دو دسمبر کو مذاکراتی کمیٹی کا دوسرا دور ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دو مطالبات پیش کئے جن میں نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کا قیام اور کارکنوں کی رہائی ہے، حکومت نے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف سے مطالبات تحریری طور پر دینے کا کہا، تحریک انصاف کے اراکین نے مطالبہ کیا کہ انہیں بانی پی ٹی آئی سے مشاوت کیلئے ملاقات کا موقع دیا جائے جس کے بعد ہی وہ تحریری طور پر اپنے مطالبات سامنے رکھیں گے۔

کئی کوششوں کے باوجود تحریک انصاف کے اراکین کی تاحال بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات نہیں ہو سکی، تحریک انصاف نے شرط رکھی ہے کہ ملاقات نہیں ہوتی تو مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھے گا، حکومت کے مطابق حالیہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مطالبات تحریری طور پر پیش کرنے پر اتفاق ہوا تھا مگر تحریک انصاف اپنے کہے سے مکر رہی ہے۔

ایسے میں حکومت نے مذاکراتی عمل کی ناکامی کے خدشے کا اظہار کیا ہے، کمیٹی کے حکومتی اراکین کا کہنا ہے کہ اسد قیصر تحریری مطالبات دینے سے گریز کر رہے ہیں جس کے باعث مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ہم نے جو باتیں مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیں وہ منٹس بن چکی ہیں، انہیں ہی تحریری مطالبات سمجھا جائے ، خود لکھ کر دینا یا نہ دینا محض ایک رسمی کارروائی ہے، ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی رکھ دیا کہ حکومتی کمیٹی اصل فیصلہ سازوں اور سٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لے۔

دراصل پاکستان تحریک انصاف نہیں چاہتی کہ وہ تحریری طور پر مطالبات پیش کرے اور بعد میں اسے سیاسی طور پر کوئی نقصان یا سبکی کا سامنا کرنا پڑے، حکومت کی حکمت عملی ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ معاملات آگے لے کر چلنا ہے تو انہیں دستاویزی شکل دی جائے تاکہ کل اپوزیشن جماعت اپنے کہے سے یوٹرن نہ لے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اسد قیصر کا بیان مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے، وہ نئی شرائط رکھ رہے ہیں، ان کے اس بیان کے بعد ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے اور آئندہ اجلاس غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے، سینیٹر عرفان صدیقی بھی کہہ چکے ہیں کہ مطالبات تحریری صورت میں سامنے نہ آنے پر مذاکراتی عمل مشکلات کا شکار ہوگا۔

دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کا ایکس اکاؤنٹ ہو یا تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے سوشل میڈیا ہینڈلز، وہاں سے حکومت مخالف بیانات کا سلسلہ جاری ہے، صورتحال دیکھیں تو مذاکراتی اجلاس کے تیسرے راؤنڈ کی تاریخ اب تک آ جانی چاہیے تھی مگر نہیں آسکی، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر اور سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز یہ دعویٰ کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے ان سے ملے بغیر مذاکراتی ٹیم کو مطالبات تحریری طور پر دینے کی اجاز ت دے دی ہے۔

دو مطالبات میں کارکنوں کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل ہے، ان کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ان کی رہائی مطالبات میں شامل نہیں ہوگی، وہ اپنے کیسز عدالتوں سے جیتیں گے، بیرسٹر گوہر نے اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ مذاکرات کی تیسری نشست ضرور ہونی چاہیے۔ اگر اس کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ملاقات نہ کروائی گئی تو مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس مرتبہ مذاکرات کے معاملے میں پاکستان تحریک انصاف کا طرزِ عمل یکسر مختلف ہے، وہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا چاہتی ہے، دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف کے تحریری مطالبات آجانے پر حکومت معاملے کو آگے کیسے بڑھائے گی۔

مذاکراتی عمل کے دوران ایک حیران کن چیز بانی پی ٹی آئی کے خلاف ایک سنجیدہ نوعیت کا کیس ’190 ملین پاؤنڈ کیس‘ کے فیصلے کا تیسری مرتبہ تاخیر کا شکار ہونا ہے، اسلام آباد کی احتساب عدالت نے یہ فیصلہ 23 دسمبر، 6 جنوری اور پھر 13 جنوری تک التوا کا شکار کیا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 190 ملین پاؤنڈ فیصلہ 18 دسمبر کو محفوظ کیا تھا۔

بانی پی ٹی آئی کے خلاف یہ واحد کیس ہے جس کا ٹرائل تقریباً ایک سال تک چلا، نیب نے 13 نومبر 2023ء کو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈالی، 17 دن تک بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں تفتیش کی گئی، 27 فروری 2024ء کو بانی پی ٹی آئی پر فردِ جرم عائد ہونے کے بعد اس کیس میں 35 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے، اس کیس کی کل 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔

بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ جو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے حکومت پاکستان کو ملنے تھے وہ ایک خفیہ معاہدے کے ذریعے حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں نہ آئے، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور وزیراعظم اپنے اثرو رسوخ سے یہ خفیہ معاہدہ وفاقی کابینہ سے منظور کروایا اور بانی پی ٹی آئی نے غیر قانونی طور پر 190 ملین پاؤنڈ کی سہولت کاری کی، اس کے نتیجے میں القادر یونیورسٹی کیلئے 458 کنال زمین دی گئی اور بشریٰ بی بی نے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی کی دستاویزات پر دستخط کر کے بانی پی ٹی آئی کی مدد کی۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے میں التوا کا تعلق مذاکراتی عمل سے نہیں بلکہ اس کا سبب پہلے جج کا کورس پر جانا اور انتظامی وجوہات ہیں کیونکہ دی گئی تاریخوں تک فیصلہ تحریر نہیں کیا جا سکا تھا، ذرائع کے مطابق اب اس بات کا قوی امکان ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ 13 جنوری کو سنا دیا جائے گا۔