تازہ اسپیشل فیچر

ڈوبتا سورج ابھرتا سال! نئے رنگ، نئی امید

لاہور: (فہیم حیدر) سال کا آخری دن ہے، آج گزرے سال کا جائزہ لیا اور احتساب کیا جا سکتا ہے، یہ سال کسی کے لیے ناقابل فراموش تو کسی کے لیے ہر سال کی طرح نارمل رہا ہو گا۔

زندگی کے اس مختصر سفر کا ایک اور سال گزر گیا، سال 2024 اپنی تمام تر تلخ و شیریں یادوں کے ساتھ اب ماضی کا قصہ بننے جا رہا ہے، دنیا اب چند گھڑیوں میں ایک نئے سفر پر روانہ ہونے والی ہے، یہ سفر امیدوں سے جڑا ہے۔

انسان اس دنیا میں آتا ہے، زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے، بچپن، جوانی اور پھر بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے، جس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے اس ماحول کا اس کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

بچپن کی ایک الگ سی دنیا ہے جس میں الگ سے خواب اور تمنائیں ہوا کرتیں ہیں، خواب کھلونے، کاغذ کے جہاز، کشتی اور پھر بڑے ہو کر استاد، ڈاکٹر بننے تک محدود ہوتے جاتے ہیں، معمولی سی باتوں پر لڑائی جھگڑے اور پھر اتنی ہی جلدی صلح کر لینا بچپن کی عام سی باتیں ہیں۔

سکول کی زندگی نسبتاً بوجھ سی ہوتی ہے، شروع میں پڑھائی میں دل نہ لگنا، سکول کا کام اور استاد محترم کی مار سب سے بڑی پریشانی ہوتی ہے، چھٹی والی رات کا الگ ہی لطف ہوتا ہے، ساری پریشانیاں بھول جاتی ہیں۔

انسان اپنے ماضی کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے وابستہ رہتا ہے، وہ ماضی کی یادوں کے سہارے تنہائیوں میں لطف اندوز ہوتا ہے، یادیں ہی حال کو خوبصورت یا بھیانک بناتی ہیں، یہ تنہایوں کی محفلیں سجانے کا ساماں ہوتی ہیں، ماضی کی اچھی یادیں ہونٹوں پر حسین مسکراہٹ اور بری یادیں آنکھوں میں ساون کی بوندوں کی طرح نمی چھوڑ جاتی ہیں۔

قدرت نے مجھ ناچیز کو لازوال نعمتوں سے نوازا ہے، یوں تو انسان ہونے کے ناتے ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے، ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت جو رب تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے وہ والدین کی صورت میں ہوتی ہے، والدین بالخصوص ماں کی محبت اور شان کو لفظوں میں نہیں پرویا جا سکتا، ماں کسی کی بھی ہو وہ دنیا کی حسین ترین عورت ہے۔

مصائب جتنے بھی بڑے ہوں، حالات خواہ کتنے بھی کٹھن ہوں لیکن خوشیوں کے چند پل ان تلخیوں کو تحلیل کر دیتے ہیں، انسانی فطرت میں اللہ پاک نے بڑی لچک رکھی ہے، وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے، حوصلے اور ہمت سے گامزن رہتا ہے، یہی زندگی ہے اور یہی زندگی کی خوبصورتی ہے۔

جو دکھ کے امتحان سے گزارتا ہے وہ اس کا ازالہ کرنا بھی جانتا ہے، وہ عظیم تر جانتا ہے کہ اس کا بندہ کتنا سہنے کی سکت رکھتا ہے، بس وہ پھر اس سے زیادہ اسے آزمائش میں نہیں ڈالتا، پھر وہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت رکھنے والا اپنے بندے کو خوش بھی کرتا ہے۔

سو جیسے بھی گزشتہ برس گزرا لیکن آپ تجزیہ کر لیں گے تو یقیناً خوشیوں کا پلڑا پھر بھی بھاری رہے گا، میں نے دیکھا اور ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہوتا ہے لیکن ہم صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور کئی بار مایوسی طاری ہوجاتی ہے لیکن پھر وقت اور حالات یوں پلٹتے ہیں کہ ہم خود اپنے رویوں پر نادم سے ہوجاتے ہیں۔

نئے سال کا پہلا لمحہ امید، یقین، خوابوں، رنگوں اور جذبوں سے بھرپور ہونا چاہیے بلکہ زندگی سے بھرپور ہونا چاہیے، اداسیاں ہمیں سجتی ہی نہیں ہیں، غموں کا طوق ہم زیادہ دیر اپنے گلوں میں نہیں لٹکائیں گے، ہم خوشی کے گیت گاتے رہیں اور ہوائیں ہمارے گیت پہاڑوں پر گنگناتی پھریں گی۔

کہتے ہیں کہ دسمبر اور نئے سال کے آتے ہی ہر شاعر اپنا پنڈورا باکس کھول لیتا ہے اور ڈھیروں اشعار نازل ہونے لگتے ہیں، سچ کہیں تو دسمبر اور نئے سال کے لمحے بہت رومان پرور اور خوابناک سے ہوتے ہیں، دسمبر کا رومانس کم از کم مجھے تو ازلوں سے رہا ہے۔

کسی نے کہا ہے کہ دسمبر مجھے راس آتا نہیں لیکن میرا دسمبر ہمیشہ مجھے راس آیا ہے، اسی طرح نئے سال کی خوشی بھی اسی دسمبر کے طفیل زیادہ اچھے طریقے سے محسوس ہوتی ہے تو پھر خواہ کوئی کچھ بھی ہے دسمبر یا ہو نیا سال مجھے تو ان سے وابستہ اشعار ہمیشہ خوبصورت لگتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ آپ نئے سال کو پوری امید، یقین، خوابوں اور رنگوں سے بھری آنکھوں سے خوش آمدید کہیں گے، نجانے کیوں مجھے ہر عید اور ہر نئے سال پر وہ کارڈ ضرور یاد آتے ہیں جو دوستوں میں تبادلے کیے جاتے تھے اور پھر سالہا سال ان کارڈز کو سنبھال سنبھال کر رکھا کرتے تھے۔

ہمیں پچھلے سال میں اپنا احتساب ضرور کرنا چاہیے کہ زندگی گزارنے کے مقصد کو کتنا مکمل کیا؟ کون سے کام ادھورے رہ گئے؟ کون سی خامیاں اور کمیاں رہ گئیں؟ سود و زباں کا حساب رکھیں گے تو آئندہ لائحہ عمل طے کرنے میں زیادہ سہولت رہے گی۔

آج سیاست پہ کوئی بات نہیں کروں گا، کون آئے گا کون جائے گا یہ وہ جانیں اور ان کا کام! مگر ہم اپنے لئے تو سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے مستقبل کے منصوبہ جات کیا ہیں؟ ہم اپنی چھوٹی سی محدود دنیا میں تبدیلی کیسے لاسکتے ہیں؟ کیونکہ نئے سال کی آمد کی خوشی اپنی جگہ لیکن درحقیقت ہماری زندگی کا ایک سال کم بھی ہو چکا ہے۔

اس لیے بہتر یہ ہے کہ عام آدمی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جھک جائے اور حالات کی بہتری کے لیے دعاؤں سے سال نو کا آغاز کرے، اللہ پاک مملکت خدا داد کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔

یہ بھی دعا ضرورکریں کہ

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

نئی امیدوں، کئی امنگوں، نئے خوابوں اور نئے رنگوں کے ساتھ آپ سب کو نیا سال مبارک!