انتخابات کی غیر جانبدارانہ حقیقت پر قومی قیادت کے تحفظات
ایسے حالات میں ملک کی سیاسی قیادت الیکشن کے نتائج تسلیم کرے گی؟
تجزیہ :سلمان غنی مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے کے الزام کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی بھی چیخ اٹھے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ جاری ہے اور ہمیں انتخابی عمل کیلئے سازگار ماحول نہیں مل پا رہا۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل کے حوالے سے سازگار انتخابی ماحول ناگزیر ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہو پا رہا۔ اسفند یار ولی نے بھی اسی طرح کے تحفظات کا اظہار کیا ہے تو دیکھنا پڑے گا کہ قومی جماعتوں کے سربراہان کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات اور الزامات میں کتنی صداقت ہے ۔ کیا واقعتاً ملک میں انتخابی عمل آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں نہیں جاری اور اس صورتحال میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سیاسی قوتیں تسلیم کریں گی؟ کیا انتخابات کے نتیجہ میں ملک میں سیاسی و اقتصادی استحکام آئے گا؟ ایک طرف انتخابات کا عمل پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے تو دوسری طرف اس کے بالکل برعکس ایک اور ماحول طاری ہو رہا ہے جس میں خدشات ہیں، تحفظات ہیں اور الزامات ہیں۔ اب سب کا تعلق عام انتخابات کے حوالے سے ہے ۔ پی ٹی آئی اور ایم ایم اے کے علاوہ تمام بڑی جماعتیں اب ایک زبان ہو رہی ہیں کہ 25 جولائی کیلئے یکطرفہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور عمران خان کی جماعت کے حریفوں کا استدلال ہے کہ انہیں تحریک انصاف کے مقابلے میں ہموار انتخابی میدان میسر نہیں ہے ۔ سیاسی منظر نامے پر جو پوزیشن نواز شریف نے اختیار کی تھی اس کے پسِ منظر میں شہباز شریف کا موقف تو با آسانی سمجھا جا سکتا تھا اور نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر نگران حکومتوں کا ن لیگی کارکنوں سے رویہ اور لاٹھی، آنسو گیس کے استعمال اور رکاوٹوں سے ن لیگ کی چپقلش اور انتخابات میں اسے پسِ پردہ کون سخت مشکل میں ڈال رہا ہے اس کاآسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ مگر اس صورتحال میں بلاول بھٹو کا لب و لہجہ اور اب واضح بیانات کہ مجھے اور میری پارٹی کو انتخابی ریس سے آئوٹ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور انہوں نے الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داریوں کے احساس اور کردار کو غیر جانبدارانہ نبھانے کی بات کی ہے ۔ پیپلز پارٹی ملکی وفاق کی ایک صوبائی اکائی (سندھ) پر اپنا مکمل کنٹرول رکھتی ہے ۔ اس جماعت کو پہلے بھی انتخابی مہم میں غیر محسوس انداز میں روکا گیا اور اب بھی رویہ ماضی والا ہے تو انتخاب ہو جائینگے مگر اس سے ملک کی وحدت، یکجہتی اور فیڈریشن کے جسم پر گہرے گھائو آئیں گے ۔ اس میں کتنی حقیقت ہے کہ انتخابی ماحول جانبداری سے من پسند جماعتوں کیلئے سازگار ہے ۔؟ اس صورتحال کے تجزیے کیلئے ہمیں ن لیگی قیادت کے مقدمات ان کے الیکشن سے پہلے فیصلے ، نواز شریف کی ہائی پروفائل گرفتاری اور لاہور کی سر زمین کو ن لیگ کیلئے میدان کارزار بنانا اور دوسری طرف سندھ میں کرپشن کے خلاف حالیہ کارروائیاں اور گرفتاریاں اور سب سے بڑھ کر اے این پی کے شہید لیڈر ہارون بلور کا وقوعہ، اب آخر میں سانحہ مستونگ نے غم اور سوگواری کی کیفیت بڑھا دی ہے ۔ اس صورتحال میں سیاسی تشدد اور جبر بھی ہے ۔ کرپشن کا مبینہ نعرہ بھی ہے ، الیکشن سے پہلے گرفتاریاں بھی ہیں اور بد امنی نے بھی معاشرتی خطرات بڑھا دیئے ہیں۔ جو داخلی بھی ہیں اور بیرونی بھی ہیں۔ تو کیا ان حالات میں الیکشن کے نتائج تسلیم کیے جائینگے ؟ اس وقت اس سوال کے واضح جواب سے کچھ بھی واضح نہیں، یقینا ًن لیگ کو ایسے انتخابات چاہئیں جس کے بعد ان کے بیانیے کی اخلاقی فتح ہو گی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی شاید وفاقی سیاست سے توبہ تائب ہو جائے اور ملک میں صوبائیت کی لہر زور پکڑ جائیگی اور ساتھ ساتھ دھاندلی اور انجینئرڈ انتخابات کا نعرہ مقبول عام نعرہ ہو گا۔ پارلیمنٹ میں علیحدہ سے میدان جنگ کا سماں ہو گا۔ ایسی پارلیمنٹ کوئی بھی بڑی تبدیلی کیلئے درکار قانون سازی کی صلاحیت سے عاری ہو گی۔ یہ صورتحال 2013 کے بعد کے ماحول سے زیادہ سنگین اور زیادہ تلخ ہو گی۔ اس صورتحال میں معیشت ایک آگ پر ننگے پائوں چلنے کے مترادف ہو گی۔ غیر ملکی قرضے ، ان کی واپسی اور سب سے بڑھ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو درکار سیاسی استحکام ایک بھولا بسرا خواب ہو گا اور حقیقت یہی ہو گی کہ بری معیشت کے بوجھ سے منتخب حکومت لڑکھڑا جائیگی۔ اس سب سے بچنا ہے تو الیکشن کمیشن اپنے کردار کا احساس کرے ، نگران حکومتوں کو اپنا پابند بنائے اور سب سے بڑھ کر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کرے ، انکے خدشات سنے اور انکو اعتماد دے اور مثبت سمت میں انتخابی عمل کو عملاً بڑھائے ۔ تب جا کر اس 25 جولائی کو اس آگ کے دریا کو قوم عبور کر سکتی ہے ، وگرنہ بحیثیت قوم ہمارے دامن پر یہ انتخابات ایک داغ اور دھبے کے سوا کچھ نہیں ہونگے ۔