سست رفتاری :بیو ر و کر یسی کی سو چی سمجھی پالیسی

 سست رفتاری :بیو ر و کر یسی کی سو چی سمجھی پالیسی

عدم تحفظ کا احساس ،ہراساں کیے جانے کی شکایات ،’’تم‘‘کہہ کر بلایا جاتا ہے قواعد بتائے جائیں تو کہا جاتا ہے ‘نئے پاکستان میں ایسے نہیں چلے گا،ایک افسر

اسلام آبا د ( بی بی سی )بیوروکریسی، یعنی اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے سینئر سرکاری حکام تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں بعض سنگین نوعیت کے تحفظات کے باعث سست رفتاری یا ‘گو سلو’ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جسے وزیراعظم عمران خان عدم تعاون قرار دیتے ہیں۔ بعض وزرا کھلے عام تو نہیں البتہ نجی محفلوں میں بیوروکریسی کے اسی رویے کو اپنے 100 دن کے ایجنڈے پر پوری طرح عمل نہ کر سکنے کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے ہیں۔ بعض سینئر افسروں کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں چلنے والی سرکاری فائلوں کی رفتار نئی حکومت کے آنے کے بعد سے سست ہو چکی ہے ۔کابینہ ڈویژن میں کام کرنے والے ایک افسر نے اس سست رفتاری کو وفاقی افسروں کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ‘گو سلو’ کی اس پالیسی کا سب سے بڑا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ جہاں ہر کابینہ اجلاس میں بیس سے پچیس ایجنڈا آئٹم ہوا کرتے تھے گز شتہ دو ماہ کے دوران ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں چار پانچ موضوعات ہی زیر بحث آ پاتے ہیں۔ بیورو کریسی یا افسر شاہی اور عمران خان کی حکومت کے درمیان اس خلیج کی بنیادی وجہ سرکاری افسروں میں عدم تحفظ کا احساس ہے جس کی بعض بہت ٹھوس وجوہات بھی موجود ہیں۔وفاق میں حکومت سنبھالنے سے پہلے عمران خان بار بار کہتے رہے کہ وہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیں گے اور اس موقع پر وہ ہر بار صوبہ خیبر پختونخوا کی مثال دیتے رہے جہاں ان کے بقول پولیس سیاسی اثر سے آزاد ہو کر خالصتاً میرٹ پر کام کر رہی ہے لیکن اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت سنبھالنے کے بعد پنجاب اور اسلام آباد کے پولیس سربراہان کی اچانک برطرفیوں کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور انہیں سیاسی مداخلت کی بدترین مثالیں قرار دیا پچھلے تین ماہ میں ملک بھر میں سرکاری افسروں کی تقرریوں اور تبادلوں کے بیسیوں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن پر بیوروکریسی میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والے بہت سے افسروں نے وزیراعظم سے شکایت کی ہے کہ نیب اہلکار انہیں بدعنوانی کی تحقیقات اور تفتیش کے نام پر ہراساں کر رہے ہیں۔ اس معاملے کا اہم نکتہ نیب قانون کے تحت نیب حکام کو ملنے والے اختیارات ہیں جو انہیں کسی بھی سرکاری افسر پر شک ہونے کی صورت میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنے اور ان کے دفاتر اور گھر پر چھاپے مارنے سے متعلق ہیں۔ان افسروں کا کہنا ہے کہ نیب افسر بدعنوانی اور بے قاعدگی میں فرق سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور نیک نیتی سے کیے گئے بعض فیصلوں کو بھی بدعنوانی کے طور پر لے رہے ہیں جس سے افسروں میں کام کرنے کا شوق ختم ہو رہا ہے ۔اس معاملے سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم نے ان افسروں کے مطالبات کے نتیجے میں نیب کے قانون میں بعض ترامیم کی ہدایت کی ہے جس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ نیب کے لیے سرکاری افسروں پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس معاملے کا ایک اور بہت اہم پہلو نیب کا گرفتار افسروں فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی ہے ۔وفاقی اور صوبائی افسروں کے حلقوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ نیب لاہور کے دفتر میں ان دونوں افسروں کو مبینہ طور پر ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے اہل خانہ اور خواتین کو بھی مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا ہے ۔بیوروکریسی میں ان دونوں افسروں کے ساتھ اس سلوک پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں کیونکہ ان دونوں کے بارے میں یہی رائے پائی جاتی ہے کہ ان افسروں سے شاید کوئی بے قاعدگی تو ہوئی ہو لیکن بدعنوانی کا کوئی ٹھوس ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آ سکا ہے ۔ بعض افسروں نے شکایت کی ہے کہ وزیراعظم کے دفتر میں تعینات سیاسی افراد اور بعض وزرا ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اور انہیں وہ عزت نہیں دی جا رہی جس کا وہ استحقاق رکھتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق یہ بات وزیراعظم کے نوٹس میں بھی لائی گئی ہے کہ ان کے بعض معاونین خصوصی افسروں کے ساتھ عمومی طور پر ناخوشگوار لہجے میں بات کرتے ہیں اور ایسا تحکمانہ انداز استعمال کرتے ہیں جو ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہے ۔ ان میں سے بعض افسروں نے تو خود وزیراعظم کے رویے کی بھی شکایت کی ہے ۔ ان افسروں کو تواتر کے ساتھ ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کیے جانے پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ اسلام آباد میں اہم ترین سرکاری افسر ہونے کے باوجود اعظم خان کا حلقہ اثر اتنا وسیع نہیں ہو سکا کہ وہ ‘وفادار’ افسروں کی ایک ٹیم تیار کر لیتے جو تحریک انصاف کی حکومت کو سپورٹ فراہم کرتی۔ اس کی ایک وجہ اعظم خان کا اسلام آباد میں اس سے پہلے اہم عہدوں پر تعینات نہ رہنا بھی بتائی جاتی ہے ۔تحریک انصاف کے بیشتر وفاقی وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی پہلی بار ان اہم ریاستی مناصب پر کام کر رہے ہیں ۔ یہ ناتجربہ کاری ان کی اپنے محکمے کے افسروں کے ساتھ کشیدگی کا اس وقت باعث بنتی ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ قواعد کی رو سے وہ یہ حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے بلکہ یہ کام تو ایک کمیٹی کے ذریعے ہو سکتا ہے ۔ ایک افسر کے بقول جو جملہ انہیں ان وزرا سے اکثر سننے کو ملتا ہے وہ ہے ‘نئے پاکستان میں ایسے نہیں چلے گا’۔ اب ان وزرا کو کون بتائے کہ پاکستان تو شاید نیا بن گیا ہے لیکن حکمرانی کے قواعد یعنی رولز آف بزنس وہی پرانے ہیں جو برطانوی افسر شاہی نے تحریر کیے تھے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں