چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی :رحمن ملک کا پس منظر میں کردار
زرداری ، تالپور کیخلاف سختی میں کمی کیلئے متحرک ، کچھ نہ کچھ بات چیت چل رہی ہے اپوزیشن 66، حکومت کے پاس 37سینیٹرز ، کسی صورت سنجرانی کو بچایا نہیں جا سکتا رحمن ملک کا کوئی بیک چینل نہیں ، شیری رحمن کی دنیا کامران خان کیساتھ میں گفتگو
لاہور(دنیا نیوز) مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل میں سینیٹ چیئرمین کے لئے میر حاصل بزنجو کی نامزدگی کا فیصلہ کیا جس کے بعد باقاعدہ اعلان ہو گیا ہے کہ صادق سنجرانی کی جگہ حزب اختلاف کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کی بنیاد پر میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرادے ۔حزب اختلاف اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کرائے ۔بہت بڑی خبر ہو گی اور حکومت کے لئے شاید اس میں پریشانی کا بھی سامان ہو ۔میزبان "دنیا کامران خان کے ساتھ" کے مطابق اس فیصلے کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں پہلی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی نئی لیڈر شپ نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا ،اس سلسلے میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی براہ راست مشاورت بھی ہوئی اور اس فیصلے پر ان دونوں شخصیات کا کلیدی کردار رہا ہے ،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد دو روز پہلے جمع ہو چکی ہے ،قواعد کے مطابق سات دن کے اندر سینیٹ کا اجلاس بلایا جائے گا یعنی آئندہ منگل تک اجلاس بلانا ہو گا،اس اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ نہیں کریں گے کیونکہ قرارداد ان کے خلاف ہے ۔عہدے سے ہٹانے کے لئے قرارداد پر رائے شماری خفیہ ہو گی۔سینیٹ میں اپوزیشن کے پاس 66اور حکومت کے پاس 37سینیٹرز موجود ہیں اس حساب سے دیکھیں تو حکومت کسی صورت صادق سنجرانی کو نہیں بچا سکتی لیکن وہ مضبوط انداز سے صادق سنجرانی کے پیچھے کھڑی ہے ۔ صادق سنجرانی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے جس میں انھوں نے اپوزیشن کی تحریک سے متعلق مشاورت کی ہے ۔ وزیر اعظم نے چیئرمین سینیٹ کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ،میزبان نے بتایا کہ اسی دوران یہ خبریں آرہی ہیں کہ پس منظر میں پیش رفت ہورہی ہے ۔اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک پس منظر میں کردار ادا کر رہے ہیں ان کی خواہش یہ ہے کہ آصف زرداری،ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے حوالے سے جو سختی ہے اس میں کچھ کمی آسکے ۔یہ تمام باتیں فی الحال ابتدائی نوعیت کی ہیں لیکن کچھ نہ کچھ بات چیت چل رہی ہے ۔ یہ بھی بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر صادق سنجرانی کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے ،اسی نے 2 مارچ 2018 کو صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی12مارچ کے انتخاب میں سنجرانی نے 57 ووٹ لئے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈی والا 53ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنے تھے ۔اس دوران مسلسل یہ گفتگو ہوتی رہی تھی کہ اس میں متحرک ، فیصلہ کن کردار ان قوتوں کا تھا جو پارلیمنٹ میں شامل نہیں تھیں ،میزبان کے مطابق اب سینیٹ آف پاکستان میں بلاول بھٹو مٹھائی کس کو کھلائیں گے اور کیا ماحول بنے گا،اس حوالے سے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر سینیٹر شیری رحمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی بینچوں کیطرف سے دانستہ طور پر یہ ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے کہ اپوزیشن ارکان حکومت سے رابطے میں ہیں اور حکومت ووٹ توڑ لے گی یا پس پردہ جوڑ توڑ ہورہا ہے ۔وزیر اعظم نے سر عام کہا ہے کہ عدم اعتماد کی یہ تحریک ناکام بنادیں گے ۔میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ کس طرح ناکام بنائیں گے کہ اپوزیشن کے پاس 65سے زائد سینیٹرز موجود ہیں اس کا مطلب ہے وزیر اعظم ہارس ٹریڈنگ کی بات کر رہے ہیں۔انھوں نے ایک سوال پر کہا میرے علم میں رحمن ملک کا کوئی بیک چینل نہیں ،وہ ہمارے سینیٹر ہیں ہماری سیاسی قیادت نے جو فیصلہ کیا ہے ،ہم سب اس کے تابع ہیں ۔ رحمن ملک کردار