مسئلہ کشمیر پر بار بار ثالثی کی پیشکش ، لگتا ہے ٹرمپ بھی پریشان ہیں
ٹرمپ سنجیدہ ہیں تو اس کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں راستہ موجود ہے دوستوں پر مسئلہ کے حل کیلئے اصرار کیساتھ اپنا اثر و رسوخ اور کردار کی ادائیگی کی ضرورت
تجزیہ: سلمان غنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے زو ر اور اس کیلئے اپنے کردار مدد کی فراہمی اور ثالثی کی مسلسل پیشکش کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ امریکی صدر کو بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ایشو اور کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال کے نتیجہ میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی، تناؤ پر پریشانی لاحق ہے اور وہ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں اور دونوں ایٹمی طاقتوں کو یہ مسئلہ حل کرنا ہے ۔ لہٰذا کہتا ہوں کہ دوستو مل کر مسئلہ کشمیر حل کر لو۔ اقوام متحدہ میں پریس کانفرنس کے ذریعے امریکی صدر کی جانب سے آنے والے ریمارکس کسی حد تک ان کی پریشانی اور سنجیدگی کو ظاہر کر رہے ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ مسئلہ کے منصفانہ اور پائیدار حل کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کو تیار ہے اور مقبوضہ وادی کے اندر بھارتی سرکار اور ان کی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین کارروائیوں پر انہوں نے آواز اٹھائی اور کیا مستقبل میں بھارت کسی امریکی کردار کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوگا جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے امریکی کردار کا تعلق ہے تو آج تک اس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اور مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا، بلکہ کشمیر کے اندر پیدا شدہ صورتحال اور بھارتی افواج کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کے عمل کے جواب میں ہمیشہ امریکہ کا یہ مؤقف سامنے آیا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عمل ہے لہٰذا یہ ملکر حل کریں اور بھارت کبھی مذاکراتی عمل پر اس لئے نہیں آیا کہ بھارت کا کشمیر پر کوئی کیس نہیں اور وہ طاقت اور قوت کی بنا پر یہاں اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے ہیں اور بھارتی طرز عمل اور نہتے اور مظلوم کشمیریوں کے خلاف ظلم و ستم نے کشمیریوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا اور آج کشمیر کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی پر بھارتی افواج کے قبضہ کے باوجود کشمیری کسی بھی قیمت پر بھارتی تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں اور اس غاصبانہ قبضہ کے خلاف قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ عالمی قوتوں اور خصوصاً امریکہ کا کشمیر کی صورتحال اور اس سے روا رکھی جانے والی پہلو تہی کو مجرمانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ امریکہ بھارت کو اپنا علاقائی اتحادی اور سٹریٹجک پارٹنر قرار دیتے ہوئے ایسے کسی عمل کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں تھا جس کے باعث بھارت اس سے ناراض ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی کو یہ جرأت ہوئی کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے یہاں سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور کشمیر پر فوجی قبضہ کر کے اپنی من مرضی سے اس کی تقسیم کر دی۔ لیکن یہ اعزاز اور کریڈٹ پاکستان کا ہے کہ اس نے اس پر فطری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ اگر بھارت کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہ ہوئی اور کشمیریوں کو طاقت اور قوت کے ذریعہ دبانے اور جھکانے کا عمل جاری رکھا گیا تو پھر پاکستان اور بھارت نیوکلیئر پاورز ہیں اور محاذ آرائی اور تناؤ کا یہ عمل خطرناک ہو سکتا ہے جس کے اثرات عالمی امن پر بھی پڑیں گے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ سمیت عالمی برادری کو اس پر تشویش ہوئی اور انہوں نے کشمیر کے اندر پیدا شدہ صورتحال کا نوٹس لیا لیکن نوٹس لینے کا یہ انداز محض بیانات تک محدود رہا البتہ ظلم، تشدد اور ریاستی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کوئی مؤثر اقدامات نہ کئے گئے ۔جب صدر ٹرمپ اس صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں تو اس کا مقصد کوئی مسئلہ کشمیر کا منصفانہ اور پائیدار حل نہیں بلکہ وہ کوئی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینا چاہتے جس سے اس کے علاقائی اتحادی بھارت کے مفادات کو ٹھیس پہنچے اور ان کی جانب سے مسلسل ثالثی کے عمل کی گردان بھی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ جیسے کوئی حل ان کے ذہن میں موجود ہے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ بھارت بھی ان کی ثالثی تسلیم کرے اور وہ کوئی حل دونوں ممالک پر مسلط کریں، لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مسئلہ کا حل وہی کارگر ہوگا جو کشمیریوں کو قبول ہوگا کشمیریوں کی جانب سے قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے کا مقصد بھارت سے نجات تھا اور اپنے مستقبل کے تعین کا اختیاراور ان مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد کا اختیار انہیں خود اقوام متحدہ اور ان کی قراردادوں سے ملتا ہے جسے بھارت نے جھٹلا کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کیا جس پر کشمیری میدان عمل میں نکلے اور ان کی جدوجہد آج جس موڑ پر آ گئی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ ہر قیمت پر بھارتی تسلط سے نجات چاہتے ہیں اور ان کی فوج سے نفرت کرتے ہیں اور خود بھارتی مسلح افواج کے دو سابق سربراہان اور بھارتی دانشور بھی یہ کہتے اور لکھتے نظر آ رہے ہیں کہ مقبوضہ وادی کشمیر کا حل طاقت اور قوت کے استعمال میں نہیں مسئلہ کا سیاسی حل ہی کارگر ہو سکتا ہے ۔ اور اب اگر صدر ٹرمپ واقعتاً کشمیر کے مسئلہ کے حل میں سنجیدہ ہیں تو اس کیلئے ان کے پاس اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں راستہ موجود ہے اور وہ انہیں بنیاد بناتے ہوئے آگے چل سکتے ہیں اور اگر ان کے ذہن میں کوئی ایسا فارمولا بنیاد ہے جس کے تحت وہ کشمیر کی بندر بانٹ یا اس پر بھارت کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تسلط مقصود ہو تو ایسا کوئی حل کارگر نہیں ہوگا کیونکہ کشمیریوں پر ایسا کوئی حل مسلط نہیں کیا جا سکتا جس میں ان کی مرضی شامل نہ ہو اور خود بھارت کشمیر میں حالات کو اس نہج پر لے آیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں موجود بعض عالمی نشریاتی اور اشاعتی اداروں کے رپورٹس کے مطابق کوئی بھی نریندر مودی سرکار اور بھارتی افواج کے حوالے سے کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں ان کے چہروں پر خوف کے سائے ہیں اور وہ ہر قیمت پر بھارت سے نجات چاہتے ہیں ۔ لہٰذا صدر ٹرمپ اگر کوئی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں اور علاقائی طور پر پاک بھارت کشیدگی کے سدباب میں ان کی دلچسپی ہے تو وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور با مقصد مذاکرات کو یقینی بنائیں اور با مقصد مذاکرات کا عمل تبھی ممکن بن سکتا ہے کہ کشمیر کے اندر سے فوج گردی ختم کی جائے ۔ پون صدی ہونے کو آئی ہے کہ کشمیر کے مسلمان بھارت کی ہر نوع کی ریاستی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں مگر انہیں حق خود ارادیت نہیں ملا اور نہ رائے شماری کی نوبت آئی انہوں اس کے برعکس سوڈان اور انڈونیشیا کی مسلمان ریاستوں کے عیسائی اکثریتی علاقوں کی جانب سے خود مختاری کے مطالبہ پر برسوں نہیں محض چند ماہ میں رائے شماری کرا کے انہیں آزاد، خود مختار حیثیت دے دی گئی۔ مگر کشمیری مسلمان آج بھی جان و مال اور عزت و آبرو سمیت ہر طرح کی قربانی دینے کے باوجود حق خود ارادیت اور رائے شماری کے منتظر ہیں اور بھارتی طرز عمل اور اس کے انسان دشمن اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاتوں کے بھوت کو باتوں سے منانے کی تمام کوشش سعی لا حاصل کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اور بھارت نے 5 اگست کو کشمیر پر جو جان لیوا وار کیا ہے بھارتی فوج نے کم و بیش 53 دن سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے ذریعہ کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور بد سمتی سے ملک کی شہ رگ پر دشمن کے جان لیوا کاری وار کے باوجود ہم ابھی تک تقریروں ، قراردادوں پر اکتفا کئے ہوئے ہیں اور آخری گولی، آخری فوجی اور آخری حد تک جانے کی ریاستی پالیسی پر کب سنجیدگی سے عمل ہوگا اب اس کا انتظار ہے ۔