حکومت نے متبادل پلان بھی تیار کر لیا؟
سپریم کورٹ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق انتہائی اہم کیس کی دوسرے روز بھی سماعت ہوئی ۔حکومت کی قانونی ٹیم کی غلطیوں ،
سپریم کورٹ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق انتہائی اہم کیس کی دوسرے روز بھی سماعت ہوئی ۔حکومت کی قانونی ٹیم کی غلطیوں ، نااہلیوں کے انبار لگ گئے ۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے انتہائی تحمل اور برداشت سے کام لیا اور حکومت کو ایک اور مہلت دے دی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے یہ ہمارا مسئلہ نہیں کہ وزیر اعظم کس کو آرمی چیف لگاتے ہیں، ہمارے پاس وقت نہیں ہے ۔ میزبان کے مطابق ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت آج رات 12 بجے ختم ہو جائے گی۔ میزبان کا کہنا تھا حکومت کی نا اہلی اُس وقت مزید عیاں ہو گئی جب چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمان کے رکھا جائے ، ایسے تو کسی اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی بھی نہیں ہوتی ۔میزبان کے مطابق عدالت عظمیٰ یقیناً اس معاملے کی حساسیت سے بہت اچھی طرح آگاہ ہے ۔دوسری جانب اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت سمری کو درست کر رہی ہے ۔حکومت ہر صورت چاہتی ہے کہ جنرل باجوہ آج نصف شب کے بعد سے اپنی دوسری مدت شروع کر دیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت اس پر کوئی کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ، اگر سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کی اسی قسم کی نالائقی کے نتیجے میں کوئی منفی فیصلہ آتا ہے تو ہماری اطلاعات کے مطابق حکومت نے ایک پلان تیار کر لیا ہے جس کے تحت صدارتی آرڈیننس مرتب کیا گیا ہے ،اس صدارتی آرڈیننس میں وہ تمام مسائل جو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سامنے آئے ہیں ان کو سمویا گیا ہے ۔ان کا حل نکالا گیا ہے ،قانون میں ترمیم کی گئی ہے اور اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جنرل قمر جاوید باجوہ کو نئی مدت کے لیے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا جائے گایا ان کو 3سال کے لیے توسیع دے دی جائے گی۔ اس طرح سے یہ معاملہ ایک نئے قانون کی صورت میں حل ہو جائے گا۔میزبان کا کہنا ہے ہماری اطلاعات ہیں کہ حکومت کی پہلی کوشش یہی ہے کہ اس دفعہ کوئی غلطی نہ ہواور سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے جو دستاویز پیش کی جائے اُس میں کوئی سقم نہ ہواور اس سلسلے میں عدالت کی تسلی ہو جائے اور اگر تسلی نہیں ہوتی تو حکومت نے اس کے لیے پلان بی تیار کر لیاہے ۔ اس حوالے سے سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ 1952 ء کا آرمی ایکٹ ہے ، اس کے رولز بھی پرانے ہیں ۔کچھ ترامیم بھی ہوئی ہیں، کچھ چیزیں متروک ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے تصورات تبدیل ہوئے ہیں ۔نئی ترامیم کی گئی ہیں ان کو آپس میں اس طرح مربوط کیا جائے کہ ہر چیز احسن طریقے سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں آرمی چیف کی توسیع کے جتنے بھی کیس ہوئے ہیں یہ کیس بھی بالکل اسی طریقے سے ہوا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے ۔سپریم کورٹ نے پہلی دفعہ یہ معاملہ اٹھایا ہے ۔ اس معاملے میں حکومت کی نالائقی کی کوئی بات نہیں۔ سالہا سال سے آرمی چیف سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک سینکڑوں لوگوں کو ملازمت میں توسیع دی گئی ہے ، اگر وہی پروسیجر اختیار کیا گیا ہے تو اس میں نالائقی نہیں ہے ۔سپریم کورٹ اصلاح کرنے کے موڈ میں ہے ۔سپریم کورٹ نے ہماری جو رہنمائی کی اور ہمیں جو گائیڈ لائنز دی ہیں اس حساب سے ہم نے اسے ٹھیک کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ آج سپریم کورٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی وکالت کریں گے ۔