عدالت نے گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں ڈال دی
حکومت کو معاملہ سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑے گا سیاسی قوتیں پارلیمنٹ میں سرخرو نہ ہوئیں تو جمہوریت بے معنی رہ جائے گی
تجزیہ: سلمان غنی عدالت عظمیٰ نے مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی مشروط توسیع دے کر اس حوالے سے پیدا شدہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ کرتے ہوئے گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں ڈال دی اور کہا ہے کہ اب پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی تقرری سے متعلق قانون سازی کرے ۔عدالتی کارروائی کے بعد ایک بات تو کھل کر سامنے آئی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اس تعیناتی کو آئین اور قانون کے مطابق بنانے اور اس کی مدت کے تعین کیلئے حکومت کو راستہ دکھا دیا، دوسرا سماعت کے ذریعے یہ بھی طے ہو گیا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں اور سب تقرریوں اور معاملات کا تعین اب قانون اور آئین کے مطابق ہی ہوگا، لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پارلیمنٹ کے اندر مجوزہ آئینی ترامیم کروا پائے گی؟ اور یہ سب کچھ چھ ماہ میں ممکن بن جائے گا؟ جہاں تک آئینی ترمیم کیلئے مطلوبہ حمایت کا سوال ہے تو یہ مسئلہ چونکہ کسی سیاست یا مفادات سے متعلق نہیں اور سوال قومی ادارے کے سپہ سالار کا ہوگا تو حکومت کو اس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑے گا ۔ کم از کم یہ ایسا ایشو نہیں جس پر سیاست ممکن ہو سکے گی، البتہ حکومتی قانونی ماہرین نے ابھی سے ایشو کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے طے کرنے کی بات کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس میں اپوزیشن نہ بھی ہو تو وہ یہ مسئلہ حل کر لیں گے ۔ غالباًیہی وہ سوچ اور اپروچ ہے جو ملکی معاملات اور پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دے رہی اور اسی سوچ کے حامل لوگ حکومت میں سرگرم ہو کر ملک کو استحکام کی جانب نہیں جانے دے رہے ۔ ویسے تو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فیصلہ کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کا نام لئے بغیر مافیاز پر ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ اس طرح وہی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن اہم ایشوز پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے قائم ہیں ۔گزشتہ تین چار روز کی کارروائی کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ خالصتاً قانونی اور آئینی ایشو کو حکومتی طرز عمل نے بڑا ایشو بنا دیا ، اس میں بڑا کردار خود حکومتی ذمہ داران ، ان کے قانونی ماہرین کا ہے جو کھل کر کورٹ میں سامنے آ گیا اور جہاں تک سیاسی مخالفین پر اس کی ذمہ داری ڈالنے کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ حکومت اس سے سبق سیکھنے اور معاملہ کی تحقیقات کرنے کے بجائے اپوزیشن کو ٹارگٹ کر کے اپنا ملبہ اس پر ڈالنا چاہتی ہے ۔عدالت کے اس فیصلہ کو گزشتہ پندرہ ماہ میں سب سے بڑا فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اب حکومت پر مزید بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آیا وہ پارلیمنٹ کے بند دروازے پر لگے یکطرفہ طاقت اور اختیار کے بند تالے کو کھولتی ہے یا نہیں؟ اگر حکومت سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہو گئی تو پھر ایکٹ آف پارلیمنٹ تو شاید منظور ہو جائیگا مگر آئین کے آرٹیکل 243 کے سکوپ کو طے کرنے کا معاملہ پر تشنگی برقرار رہے گی۔ جو طرزِ عمل فیصلے کے بعد عمران خان کے ٹویٹ کے وقت اپنایا گیا اس رویئے کے بعد پارلیمنٹ میں قانون سازی کے اس ٹاسک اور ذمہ داری کو بہت نقصان ہوگا۔ خدا کرے کہ حکومت اور اپوزیشن اس اہم ترین آئینی معاملے پر متفق ہو جائیں کیونکہ اس کے جمہوریت پر اثرات بہت دور رس ہونگے ۔ اب تمام سیاسی جماعتوں کو پوائنٹ سکورنگ کے بجائے جمہوریت کے وسیع تر مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس اہم ترین عہدے کے تمام خدوخال بہت وضاحت اور صراحت کے ساتھ طے کر لینے چاہئیں ۔ اس تمام صورتحال کے بعد بھی اگر سیاسی قوتیں پارلیمنٹ میں سرخرو نہ ہوئیں تو پھر ملک میں جمہوریت بے معنی رہ جائے گی۔