جوہر ٹاؤن دھماکا : ماسٹر مائنڈ دبئی میں مقیم ، سہولت کار ائیر پورٹ سے گرفتار

جوہر ٹاؤن دھماکا : ماسٹر مائنڈ دبئی میں مقیم ، سہولت کار ائیر پورٹ سے گرفتار

کراچی کے ڈیوڈ نے گاڑی دی،ماسٹر مائنڈ سمیع اللہ کے پختونخوا میں مقیم بھائی نے بارود نصب کیا،گرفتاری کیلئے چھاپے ، دہشتگرد نے بہت سراغ چھوڑے ،منظم تنظیم کی کارروائی نہیں لگتی،ماسٹر مائنڈ کے پیچھے موجود قوت ڈھونڈ رہے :سی ٹی ڈی ، گاڑی 11سال پہلے چھینی گئی ،دھماکے کے روز بابو صابو ناکے پر روکا گیا اہلکار نے ڈگی کھولنے میں ناکامی پر جانے دیا:ذرائع ، 8افراد گرفتار :وزیر قانون کو بریفنگ،شہید باپ بیٹا پاکپتن میں سپرد خاک،حاملہ خاتون سمیت 4کی حالت تاحال نازک

لاہور (فہد شہباز ، خبر نگار سے ،سیاسی رپورٹر سے ، نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)جوہر ٹاؤن دھماکا کی تحقیقات میں اہم پیش رفت ہو ئی اور سکیورٹی اداروں نے لاہور ایئرپورٹ سے ایک شخص ڈیوڈ پیٹرسن کو گرفتار کر لیا جو دھماکے میں سہولت کار تھا ۔ اس سے تفتیش میں ماسٹر مائنڈ کا بھی پتا چلا لیا گیاہے جو دبئی میں مقیم ہے ۔ تفصیلات کے مطابق دوسری جانب لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار ڈیوڈ پیٹرسن کا تعلق کراچی سے بتایا جاتا ہے ۔ جو کچھ عرصہ قبل دبئی سے واپس آیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈیوڈ سے تحقیقات میں پتا چلا کہ جوہر ٹائون دھماکے کا ماسٹر مائنڈ سمیع اللہ ہے جو دبئی میں مقیم ہے اور اسکاتعلق کے پی کے سے ہے ۔سمیع اللہ نے ڈیوڈ پیٹرسن کو گاڑی خریدنے کیلئے رقم فراہم کی اور رابطے کیلئے ایک موبائل فون مہیا کیا ۔ ڈیوڈ نے اپنے قریبی دوستو ں کے ذریعے گاڑی خریدنے میں مدد کی اور سمیع اللہ کے بھائی کی طرف سے بھیجے گئے افراد کے سپرد کردی۔سمیع اللہ کے بھائی نے دھماکا خیز مواد گاڑی میں نصب کروایا اور دھماکا کیا۔ ڈیوڈ کا قیام لاہور میں ریلوے سٹیشن کے قریب ایک پرائیویٹ ہوٹل میں بھی رہا ہے ، ایئرپورٹ سے اسکی گرفتاری کے بعد حساس ادارے کے اہلکار جب سمیع اللہ کے بھائی کو گرفتار کرنے کے پی کے پہنچے تو وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ، اس کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے گئے لیکن پکڑا نہ جاسکا۔ڈیوڈ نے اپنے ابتدائی بیان میں تسلیم کیا کہ اس کے علم میں تھا کہ گاڑی کس مقصد کیلئے استعمال ہونی ہے تاہم اسے اس کے عوض بھاری رقم ملی تھی۔ ڈیوڈ کے موبائل سے ملنے والے شواہد کے مطابق وہ براہ راست سمیع اللہ سے ہدایت لیتا تھا ۔سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسر نے نام نہ لینے کی شرط پر بتایا کہ دھماکا ریموٹ کنٹرول ڈیوائس یا پھر ٹائم بم سے کیا گیا اس کی تحقیقات ہونی ابھی باقی ہیں۔ ڈیوڈ صرف یہ جانتا ہے کہ اس دھماکے کا ماسٹر مائنڈ سمیع اللہ ہے اور سمیع اللہ نے اپنے بھائی کی مد د سے دھماکاکروایا۔ ڈیوڈ تک پہنچنا اس لئے بھی آسان تھا کہ گاڑی کی تحقیقات کی گئیں تو اس کا سراغ مل گیا اور پھر سمیع اللہ اور اسکے بھائی کا کردار سامنے آگیا ۔ اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ یہ دھماکا جس طریقے سے کیا گیا ہے اب تک کی تحقیقات کے مطابق صاف پتہ چلتا ہے کہ اس دھماکے کے پیچھے دہشت گردی کی منظم تنظیم شامل نہیں کیونکہ دہشت گردوں کی جانب سے بہت سے ایسے سراغ چھوڑے گئے جن سے تحقیقات آگے بڑھیں۔ اگر یہ کسی منظم دہشت گرد تنظیم کی کارروائی ہوتی تو دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی کی شناخت ہی نہ ہوپاتی ۔ ماضی میں اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ گاڑی کو افغانستان سے منگوایا جاتا تھااوردہشت گردی کیلئے استعمال کیا جاتاتھا۔ اتنا ضرور کہا جاسکتاہے کہ ڈیوڈ کو پیسے کا بڑا لالچ دیا گیا لیکن یہ کام کسی منظم دہشتگرد تنظیم کا نہیں لگتا تاہم اہلکار کا کہنا تھا کہ اس بارے تحقیقات کی جارہی ہیں کہ سمیع اللہ کے پیچھے کونسی قوت ہے ۔ ڈیوڈ پیٹرسن کے خاندان سے بھی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ دوسری جانب دہشتگردی کیلئے استعمال ہونیوالی گاڑی کے حوالے سے تحقیقات میں مزید معلوم ہوا ہے کہ گاڑی براست موٹروے لاہورمیں داخل ہوئی، 9بجکر40منٹ پرگاڑی کوبابوصابوناکے پرتعینات سکیورٹی اہلکاروں نے تلاشی کے لیے روکا تھا اور اہلکار نے دستاویزات اورکوائف کی تلاشی کے بعدگاڑی کوروانہ کردیا۔ ذرائع کے مطابق اہلکار نے ڈ گی کھولنے کی کوشش بھی کی اور ناکامی پر پانچ منٹ بعد جانے کی اجازت دے دی ۔ گاڑی کو جب چیک کیا گیا تو اس میں بارودی مواد نہیں تھا، گاڑی میں بارودی مواد کس مقام سے رکھا گیا اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی نے بابوصابوناکے پرتعینات سکیورٹی اہلکاروں کوشامل تفتیش کرلیا ہے ۔ گاڑی 2010میں ڈکیتی کے دوران چھینی گئی تھی اور اس کا مقدمہ گوجرانوالہ کینٹ میں شکیل احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا ۔ واردات میں چھن جانے والی کار بعد میں پولیس کے سب انسپکٹر ، وکیل اور دیگر افراد کے زیر استعمال رہی جبکہ تھانہ کینٹ پولیس ملزمان کو ٹریس کر سکی اور نہ ہی کار برآمد کر سکی جبکہ 11 سال تک کار کو کسی ناکہ پر بھی چیک نہ کیا جا سکا ۔ واردات والے روز گاڑی شہر میں داخل کیسے ہوئی اور کسی بھی سیف سٹی کیمرے نے اس کا سراغ نہ لگا یا اس حوالے سے بھی تحقیقات جاری ہیں ۔ دریں اثنا وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی منعقدہ اجلاس میں بتایا گیا کہ 8افراد کو حراست میں لیا گیا جن سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پنجاب پولیس نے جوہر ٹائون دھماکے کی تحقیقات میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے ۔ پولیس ملزمان کی گرفتاری کے قریب ہے ۔ جلد ملزمان کو قانون کی گرفت میں لیکر عوام کو اچھی خبر سنائیں گے ۔ علاوہ ازیں دھماکے میں شہید ہونیوالے باپ اور بیٹے کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی، دونوں افراد کی میتیں پاکپتن کے محلے حسن پورہ میں پہنچنے پر گھر میں کہرام مچ گیا اور علاقے کی فضا سوگوار تھی۔ نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں ڈھکو چشتی میں ادا کی گئی جبکہ زخمی ہونیوالے 12سالہ بچے اور پولیس اہلکار سمیت 7افراد جناح ہسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں سے 4کی حالت تشویشناک ہے اور حاملہ خاتون وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانسیں لے رہی ہے ۔ پولیس اہلکار کی حالت بھی تشویشناک ہے اسکو مین آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔ زیر علاج زخمیوں میں 12 سالہ ناصر ، 26 سالہ عاطف ، 22 سالہ عبدالرحمن،45 سالہ طاہر،22 سالہ انتظار، 35 سالہ زاہدہ اور 19 سالہ عرفان شامل ہیں۔ادھرشواہد اکٹھے کرنے کے لیے گزشتہ روز جائے وقوعہ کے ارد گرد علاقے کو سیل رکھا گیا ۔ جاں بحق ہونے والے مالی کے بھائی کا کہنا ہے کہ جس دیوار کے ساتھ دھماکا ہوا وہیں پر میرا بھائی گھاس کاٹ رہا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں