بلوچستان اسمبلی : 65 میں سے 33 ارکان کی وزیراعلی جام کمال کیخلاف تحریک عدم اعتماد
بشریٰ ، ماہ جبین ، اکبر ،لیلیٰ غیرحاضر، یارمحمد امریکا میں،ارکان لاپتا:اپوزیشن،اہلخانہ مقدمہ درج کرالیں،استعفیٰ نہیں دونگا،ووٹنگ کے روز اکثریت کاپتا چلے گا:جام کمال ، ارکان بازیاب نہ ہوئے توپورا بلوچستان احتجاج کریگا:کھیتران، بحث مکمل، 25اکتوبرکو رائے شماری ، اپوزیشن، ناراض ارکان کا دھرنا،34ارکان نے ووٹ دیا:ظہوربلیدی
کوئٹہ(سٹاف رپورٹر ،نمائندہ خصوصی، دنیا نیوز،نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال کیخلاف 65میں سے 33ارکان کی حمایت سے تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی، اپوزیشن نے 4ارکان اسمبلی کے لاپتا ہونے کا دعوی ٰ کردیا،وزیراعلیٰ نے ارکان کے اہل خانہ کو مقدمہ درج کرانے کا مشورہ دے دیا اور کہا وہ استعفیٰ نہیں دیں گے ، قرارداد پر بحث مکمل ہوگئی، 25اکتوبر کو رائے شماری ہوگی۔بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں شروع ہوا تو حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور ناراض رکن اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے تحریک عدم اعتماد پیش کی ، سپیکر نے رولنگ دی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کی ہے ، سردار عبدالرحمن کھیتران نے اپنے خطاب میں کہا یہ 65 کا ایوان ہے ، جام کمال خان ہمارے لیے قابل احترام شخصیت ہیں، یہ ایک قبیلے کے سردار ہیں، ان کو قائد ایوان بھی اکثریت کے بل بوتے پر منتخب کیا گیا تھا اور آج بھی اکثریت کے بل بوتے پر یہ قرارداد آ گئی ہے اور اس ایوان نے فیصلہ کردیا ہے حالانکہ ہمارے اراکین اسمبلی مسنگ پرسن میں آ گئے ہیں،کسی کا گلا دبا کر کوئی اقتدار میں نہیں رہ سکتا، یہ بلوچستان کی روایت نہیں ہے کہ کسی کو آپ مسنگ اور اغوا کریں اور ایوان کے تقدس کو پامال کریں، کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی،اگر لاپتا افراد کو بازیاب نہ کرایا گیا تو یہ ایوان اور پورا بلوچستان احتجاج کرے گا، ہم اس سطح پر نہیں جانا چاہتے ، ہمارے لیے ہر ادارہ قابل اعتماد ہے ،جب ایوان کا ایک شخص سے اعتماد اٹھ گیا ہے تو بہتر یہی ہو گا کہ جام کمال خان استعفیٰ دے دیں،اخلاقیات اور بلوچستان کی روایت کابھی یہی تقاضا ہے ،ہم تاریخ میں یہ نہیں لکھوانا چاہتے کہ انہیں وزیراعلیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا، اقتدار سے چپکے رہنے کا فائدہ نہیں، آج پانچ لاپتا ہیں، کل مزید پانچ لاپتا کر لیں گے ، شاید ان کی کرسی بچ جائے لیکن اب یہ ایوان نہیں چلے گا، قائد حزب اختلاف ملک سکندر نے اپنے خطاب میں اراکین اسمبلی کے لاپتا ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے ایوان نہیں چلے گا ، اس طرح سے آج جو بھی لوگ اپنا آئینی اور جمہوری حق استعمال کررہے ہیں، انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے ۔ اگر اراکین اسمبلی کو اپنا جمہوری حق استعمال نہ کرنے دیا جائے تو کیا یہ ایوان اور وزیر اعلیٰ اس طرح سے چل سکتے ہیں، یہ ناممکن ہے لہذا سپیکر اراکین اسمبلی کی بازیابی کا حکم دیں،اگر ایسا نہ ہوا تو ہم گھر نہیں جائیں گے ، یہیں بیٹھ کر سڑکیں بند کریں گے اور اس وقت تک بیٹھیں گے جب تک یہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری عمل ختم نہیں ہوتا۔بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی)مینگل کے ثنا اللہ بلوچ نے کہا وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف چارج شیٹ لمبی ہے ، کوئٹہ ترقیاتی پیکیج اور ماہی گیری کے شعبے میں بڑی کرپشن ہوئی ہے ، پانی، سڑکوں، تعلیم کے منصوبے اپنے پسندیدہ لوگوں کے نذر کیے گئے ہیں، میرے انتخابی حلقے میں تعلیم کا کوئی منصوبہ شروع نہیں ہوسکا،کوئی اپنی جاگیر کے ساتھ ایسا نہیں کرتا، جیسا آپ نے بلوچستان کے ساتھ کیا، آپ کو لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا چاہیے تھی، جو اپنے اراکین کے ساتھ مصالحت نہیں کرسکتا، وہ ناراض لوگوں سے کیا مصالحت کرے گا،جام کمال کیخلاف اپوزیشن کا عدم اعتماد نہیں، یہ عوام کا آپ پر عدم اعتماد ہے ، آپ کو بھائی کی حیثیت سے مشورہ دے رہا ہوں کہ آپ عہدہ چھوڑ دیں،عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی)کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)کی اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر سوال اٹھادیااور کہا حیرت ہے کہ 20 جون کو ان ہی لوگوں نے بجٹ میں وزیراعلیٰ کے حق میں بات کی تھی،ایسی کون سی بربادی اور تباہی سامنے آئی کہ 3 ماہ میں سب کچھ بدل گیا؟ بدقسمتی کی بات ہے ، ایسے معاملات میں سیاسی افکار اور نظریات کو ایک طرف رکھا جاتا ہے ، بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی ناراض اراکین بشریٰ رند، ماہ جبین ، لیلیٰ ترین ،اکبر آسکانی شریک نہیں ہوئے ، لالارشید تاخیر سے پہنچے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند صاحبزادے کی بیماری کی وجہ سے امریکا میں ہیں،تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر بحث کے دوران وزیر اعلیٰ جام کمال حامی ارکان ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل، میر عارف جان محمد حسنی، حاجی میٹھا خان کاکڑ، نوابزادہ میر گہرام بگٹی، اصغر خان اچکزئی، نوابزادہ طارق خان مگسی سے مشاورت کرتے رہے ۔ اختلافات کی وجہ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر میر ظہور احمد بلیدی وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ساتھ لگی اپنی کرسی پر نہیں بیٹھے ۔ بحث کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال خان نے تقریر کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ وہ کچھ باتوں کا جواب دینا چاہتے ہیں وہ سب کی بات سن کر جائیں گے توسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ کو تقریر کرنے سے روک دیا اور کہا کہ قائد ایوان آخر میں تقریر کرتے ہیں،تھوڑا انتظار کریں آپ ابھی تک قائد ایوان ہیں، باری آنے پر وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنے خطاب میں کہا میں استعفیٰ نہیں دوں گا، رائے شماری کے فیصلے کو قبول کروں گا، ووٹنگ کے دن اکثریت کاپتا چلے گا،ارکان اسمبلی لاپتا ہیں تو اہل خانہ تھانہ میں جا کر مقدمہ درج کرالیں، یہ پہلی بار نہیں ، ماضی میں بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آچکی ہیں، تعلقات قائم رہیں گے ،اپوزیشن کو ساڑھے 3سال سے گلے شکوے ہیں بلوچستان کے ہر ضلع میں کام ہورہا ہے ،کسی کو ناراض ہونے سے نہیں روک سکتے ، ناراض ارکان سے قلمدان واپس لے سکتے ہیں،بعدازاں سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا تحریک عدم اعتماد پر بحث مکمل ہونے کے بعد تمام ارکان کو ووٹنگ کے طریقہ کار کے حوالے سے مطلع کردیاگیا ہے ، رائے شماری25اکتوبر بروز سوموار صبح گیارہ بجے ہوگی ۔اجلاس کے بعد اپوزیشن اور ناراض ارکان نے اسمبلی کے باہر دھرنا دے دیا اور کہا چار ارکان کے ملنے تک دھرنا جاری رہے گا،ظہور بلیدی نے کہا 34ارکان نے کھڑے ہو کر ووٹ دیا، وزیراعلیٰ نے 4ارکان کو حبس بے جا میں رکھا،ملک سکندر ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا قرار داد کے حق میں 33 لوگ کھڑے ہو گئے بعد میں لالا رشیدبھی جنہیں گرفتار کیا گیا تھا، 34 ارکان جام کمال کے خلاف ہیں اس لیے باعزت طور پر استعفیٰ دے دیں ،دوران بحث سپیکر نے بھی وضاحت کی کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کیلئے تیرہ ارکان کی ضرورت تھی تاہم 34نے حمایت کی کوئی رکن مسنگ نہیں ، جو ارکان آج کے اجلاس میں نہیں آئے وہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن آئیں اور اپنی رائے کااظہار کریں ۔قبل ازیں بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین اور متحدہ اپوزیشن نے حکومت اور وزیراعلیٰ کو مزید دو اراکین کی حمایت سے محروم کردیا ،ناراض اراکین اور متحدہ اپوزیشن نے ایم پی اے ہاسٹل میں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے رہنما احسان شاہ سے ملاقات کی،بعدازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ پاکستان عوامی پارٹی کے رہنما احسان شاہ بھی ہمارے قافلے میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ نور محمد دمڑ بھی ہمارے کاروان میں شامل ہوگئے ہیں انہوں نے کہا کہ سردار اختر مینگل سے بھی بات ہوئی ہے اور انہوں نے بھی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد آج ہمارے حمایتی اراکین کی تعداد 42 تک پہنچ گئی ہے ۔دوسری جانب وزیر اعلی ٰبلوچستان جام کمال خان نے بلوچستان اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے روز سے کہہ رہا ہوں کہ اتحادی ہمارے ساتھ ہیں اور ہم پر امید ہیں،پہلی مرتبہ اپوزیشن حکمران جماعت کے ساتھ مل کر کھیل رہی ہے ، سیاست میں سب پر اعتماد ہوتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومتی اراکین اپوزیشن کے ساتھ مل کر تحریک لے کر آئیں،ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آتی تو بات بنتی تھی، اپوزیشن نے اتحاد کو نقصان پہنچانے کیلئے ماحول پیدا کیا، ہم بلوچ اور پشتون ہیں اور کسی کو دعوتوں میں جانے سے نہیں روکتے ، احسان شاہ ہمارے ساتھ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ثنااللہ زہری بھی ہمارا ساتھ دیں گے ، 26 اراکین ہمارے ساتھ ہیں جبکہ یار محمد رند بھی ہمارے ساتھ مشاورت میں تھے ،ادھر عدم اعتماد کی قرارداد پر انجینئر زمرک خان اچکزئی کا اعتراض سپیکر بلوچستان اسمبلی نے مسترد کردیا، گزشتہ روز اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال کی اتحادی جماعت اے این پی کے انجینئر زمرک اچکزئی نے اعتراض اٹھایا تھا کہ بلوچستان اسمبلی کے قواعد و انضباط کار کے مطابق جن محرکین نے قرارداد پیش کی ہے ان کا اسمبلی میں پیش ہوکر قرارداد کے حق میں سامنے آنا ضروری ہے تاہم سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے ان کا اعتراض مسترد کیا اور کہا کہ قواعد و انضباط کار1974 کی شق 19کے تحت قرارداد پیش کرنے کیلئے صرف ایک محرک بھی کافی ہے ،قرارداد پیش کرنے کیلئے 20فیصد ارکان کی اجازت ضروری ہوتی ہے ،قبل ازیں وزیراعلیٰ جام کمال نے بی اے پی اور اتحادی جماعتوں کے صوبائی وزرا، سینیٹرز اراکین اسمبلی اور پارلیمنٹرینز کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا ، ظہرانہ میں ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی بلوچستان سردار بابر خان موسیٰ خیل، صوبائی وزرا نوابزادہ طارق مگسی، میر سلیم احمد کھوسہ، میر عارف جان محمد حسنی، حاجی محمد خان طور اتمان خیل، مٹھا خان کاکڑ، عبدالخالق ہزارہ، انجینئر زمرک خان اچکزئی، صوبائی مشیران نوابزادہ گہرام خان بگٹی، سردار سرفراز خان ڈومکی، ملک نعیم خان بازئی،سینیٹر آغا عمر احمد زئی، سینیٹر دنیش کمار،پارلیمانی سیکرٹریز ڈاکٹر ربابہ بلیدی، مبین خان خلجی, خلیل جارج، اے این پی کے پارلیمانی لیڈر و رکن صوبائی اسمبلی اصغر خان اچکزئی، اراکین اسمبلی قادر نائل، سردار مسعود خان لونی، فریدہ رند، شاہینہ کاکڑنے شرکت کی دریں اثنا ایک بیان میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا اپوزیشن کے چند ممبران اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونگے ، پی ڈی ایم بلوچستان عوامی پارٹی سے مدد مانگ رہی ہے ،عجیب بات ہے کہ انکے پہلے اور اب کے بیانات میں تبدیلی آئی ہے ، اپوزیشن کے عزائم کامیاب ہونے نہیں دیں گے ، ان کا اصل مقصد حکومت حاصل کرنا نہیں بلکہ بلوچستان کو تباہی کی طرف لے جانا ہے ۔